Open Menu

Kia Zakat Tax Hai - Article No. 1669

Kia Zakat Tax Hai

کیا زکوة ٹیکس ہے؟ - تحریر نمبر 1669

ٹیکس کی بنیاد استحصال پر ہے جبکہ زکوة مال کو پاک کرتی اور معاشرے کو مستحکم کرتی ہے زکوة اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک بنیادی رکن ہے

جمعہ 9 مارچ 2018

مفتی محمد یوسف طیبی
پچھلے دنوں ایک دوست نے ایک ویڈیو کلپ ارسال کیا جس میں ایک مفتی نما شخص کسی ٹی وی چینل پر بتارہے تھے کہ زکوة بھی ٹیکس ہے اگر کسی نے اتنا ٹیکس ادا کردیا جتنی اس پر زکوة واجب تھی تو اب اس کی زکوة ادا ہوگئی میں اس وقت سے گہری سوچ میں گم رہا کہ اب یہ ٹی وی اسکالر اتنی بڑی باتیں کسی روانی میں کرجاتے ہیں اور ان کی زبان پر ذرہ برابر بھی لکنت ظاہر نہیں ہوتی گویا قرآن کی آیت کا ترجمہ کررہے ہیں یا پھر امت کے اجماع پر لب کشائی فرمارہے ہیں۔


1 ۔اگر شریعت کی روشنی میں بغور دیکھا جائے تو زکوة بالکل ٹیکس نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کا اہم رکن ہے جبکہ ٹیکس کی نوعیت کچھ اورہوتی ہے ٹیکس اکثر اوقات ظلم کے زمرے میں ہی ہوتاہے آئیں ذرا دیکھتے ہیں کہ زکوة اور ٹیکس میں کیا فرق ہیں۔

(جاری ہے)


1 ۔زکوة اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد فریضہ ہے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے جس کا تارک واجب القتل ہیں صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کا اس بات پر اجتماع ہے کہ ایسے شخص سے لڑائی کی جائے گی اور اگر وہ زکوة نہ دے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اسی لئے عہد صدیقی اکبر میں منکرین زکوة کے خلاف باقاعدہ قتال ہوا جبکہ ٹیکس معروضی حالات میں وقتی طورپر لاگو کیا جاسکتا ہے پھر اس سے حاصل ہونے والی رقم کو امانت داری کے ساتھ امت اسلامیہ کی حفاظت یا بیہود کے لیے خرچ کیا جائے لیکن اگر اس کے بغیر گزارہ چلتا ہو تو پھر ٹیکس لگانا ظلم قرار پاتا ہے،
عہدنبوت میں ایک عورت نے بدکاری کرلی اس نے خود کو سزا کے لیے پیش کردیا آپﷺ نے اس کو پتھر مار کر رجم کرنے کا حکم دیا اس کاخون حضرت خالد رضی اللہ عنہ پر بھی گرگیا انہوں نے اس عورت کے بارے میں برے الفاظ استعمال کئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا خالد رضی اللہ عنہ حوصلہ کرو اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹیکس لینے والا بھی ایسی توبہ کرے تو اس کو بھی بخش دیا جائے(صحیح مسلم سنن ابی داﺅد)
2 ۔

زکوة اور عشر میں بھی فرق ہوتا ہے زکوة 2.5 فیصد قابل نصاب مال پر ہے جبکہ عشر5 سے 10 فیصد ہے اگر بارانی زمین ہو تو 10 فیصد اور بصورت دیگر 5 فیصد ادا کرنا ہوتا ہے اگر یہ ٹیکس ہوتا تو اس کا نصاب حکمرانوں پر چھوڑدیا جاتاجتنے فیصد سے تمہارا گزارا ہوتا ہے لاگو کرلیا کرو،
3 ۔پھر زکوة عشر کے مصارف آٹھ ہیں جن کو ذکر سورة توبہ میں آیا ہے اس کے علاوہ کسی مصرف میں اس کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے جبکہ ٹیکس کے وسیوں مصارف ہیں جہاں حکومت اس کو خرچ کرنا چاہتے اپنی مرضی سے کرسکتی ہے،جبکہ مصارف کا معاملہ بہت حساس اور اس سے بالکل مختلف ہے رسول اللہﷺ کے پاس زیاد بن حارث صدائی آکر تعاون کی درخواست کرتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ زکوة کی تقسیم کے بارے میں کسی نبی یا غیر نبی کی صوابدید پر بھی راضی نہیں ہوا بلکہ اس مصارف خود بیان فرماتے ہیں اس لئے اگرا ٓپ ان آٹھ میں شامل ہیں تو میں آپ کو زکوة سے فنڈدوں گا،(سنن ابی داﺅ 1630 )
4 ۔
زکوٰة سال میں ایک دفعہ ادا کرنا فرض ہے جبکہ بعض ٹیکس روزانہ بعض ماہانہ بعض سالانہ اور بعض حسب موقع لاگو ہوتے ہیں
5 ۔زکوة کے بارے میں فرمان نبویﷺ ہے کہ تو خذمن اغنیاءھم فتردعلیٰ فقراءھم کہ کسی علاقے کے صاحب حیثیت لوگوں سے لے کر انہیں کے فقراءمیں تقسیم کردی جائے اگر کسی علاقے میں فقیر کم ہیں تو جو زکوٰة بچ جائے وہ بیت المال میں جمع ہوجاتی ہے جبکہ ٹیکس غریبوں اور امیروں سے لے کر مختلف قسم کے شعبہ جات اور مدات میں خرچ کئے جاتے ہیں۔

6 ۔اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہیں،
اے نبیﷺ ان کے مال سے زکوٰة قبول فرمائیں اور اس زکوٰة کے ساتھ ان کو ناپاک کردیں جبکہ ٹیکس کا نظام سوائے ناگریز قومی ضرورت کے ٹیکسوں کے عموماً ظلم اور چوری کے مشابہ ہیں اس سے خاک کوئی پاک ہوگا تو پھر اس مال کے ساتھ مزید عوام پر ظلم ڈھائے جاتے ہیںاس صورت میں ٹیکس کا نظام زکوٰة جسے اہم اسلامی نبوی فریضہ کے قائم مقام ہرگز نہیں ہوسکتا اس لئے بچائیں اللہ تعالیٰ سب کی حفاظت فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu