Open Menu

Masnun Aitkaf - Article No. 1190

Masnun Aitkaf

مسنون اعتکاف - تحریر نمبر 1190

اعتکاف جو ہے مسنون ہے رمضان شریف کے آخری عشرے میں ہوتا ہے، احکام یہ ہیں کہ مسجد میں مرد کے لئے اعتکاف میں بیٹھنا لازمی ہے۔ حالت اعتکاف میں سوائے ضروری حاجات اور کسی ایسی اشد ضرورت کے جو مسجد میں پوری نہ ہو سکے مسجد سے باہر نکلنے کی ممانعت ہے، عام حالت میں مسجد میں تجارت لین دین وغیرہ ممنوع ہے

پیر 19 جون 2017

سید محمد وجیہ السیما عرفانی:
اعتکاف جو ہے مسنون ہے رمضان شریف کے آخری عشرے میں ہوتا ہے، احکام یہ ہیں کہ مسجد میں مرد کے لئے اعتکاف میں بیٹھنا لازمی ہے۔ حالت اعتکاف میں سوائے ضروری حاجات اور کسی ایسی اشد ضرورت کے جو مسجد میں پوری نہ ہو سکے مسجد سے باہر نکلنے کی ممانعت ہے، عام حالت میں مسجد میں تجارت لین دین وغیرہ ممنوع ہے۔
حالت اعتکاف میں خامو ش رہنے کا حکم ہے۔ اعتکاف کے لئے نیت کرنا لازم ہے مسجد میں داخل ہوتے وقت نیت کرے، داخل ہونے کے بعد جب تک شوال کا چاند نظر نہ آئے اعتکا ف ختم نہیں ہوتا، بہتر یہ ہے کہ محلے کی مسجد میں دو نفل پڑھے (اعتکاف سے نکلنے کے بعد) پھر اپنے بال بچوں سے ملے۔اعتکاف سنت کفایہ ہے اگر کسی بستی میں کوئی بھی اعتکاف میں نہیں بیٹھے گا تو سب کی بازپرس ہو گی اگر کسی کو ایسی مصروفیت ہے جو ازروئے شریعت حاوی ہے یعنی بچیاں جوان ہیں اور نگرانی فرض ہے، بیوی جوان ہے یا وہ کمائے گا نہیں تو اہل خانہ کو کھانے کو نہیں ملے گا تو اسے اعتکاف میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔

(جاری ہے)

حالت اعتکا ف میں عام خاندانی زندگی کے معاملات ممنوع ہیں، روزہ کے ساتھ اعتکاف اور اس کے ساتھ خاموشی، لازمی کردہ عبادات کی ایک اپنی لذت ہوتی ہے اس بارگاہ عالی کی عجیب بات ہے کہ بعض دفعہ زبان بندی ہو جاتی ہے اور یہ حکم آ جاتا ہے کہ گفتگو نہ کی جائے لیکن بعض دفعہ غلطی لگ جاتی ہے اور انسان بھولے سے کوئی بات کر لیتا ہے اس لئے ان کی کرم فرمائی کا یہ انداز ہے۔
وہ یہ کام کرتے ہیں کہ قوت گویائی سلب کر لیتے ہیں۔حالت اعتکا ف میں حوائج ضروریہ کے سوا مسجد سے باہر نہیں نکل سکتے جو شخص اعتکاف میں ہو وہ کسی سے گفتگو نہیں کر سکتا۔ رمضان المبارک کے اعتکاف کے لئے انفرادی طور پر کچھ پڑھنے یا نوافل کے لئے کوئی پابندی نہیں۔ چاہے تو وہ قرآن کریم پڑھتا رہے، درود شریف پڑھتا رہے، حسب ضرورت سویا رہے کوئی پابندی نہیں اور طریقت میں بھی کوئی پابندی نہیں۔

محلے کی مسجد میں ضرور اعتکاف ہونا چاہیے اگر اس مسجد میں کچھ اور لوگ بیٹھے ہوں تو پھر کسی دوسری مسجد میں اعتکاف ہو سکتا ہے۔مسافر کے لئے کوئی پابندی نہیں یعنی ابن السبیل کیلئے، ابن السبیل وہ شخص ہے جس نے اپنی زندگی کے سفر کو اللہ کے لئے وقف کر دیا ہو وہ اگر مقیم ہے تو پھر بھی سفر میں ہے۔ قرآن حکیم جہاں انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیتا ہے وہاں ابن السبیل کا ذکر بھی ہے۔
ایک جگہ فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں باندھ دئیے گئے ہیں لازم ہے کہ ان کی مدد کی جائے۔ فرشتوں کی جماعتیں مساجد میں یہ دیکھنے کے لئے آتی رہتی ہیں کہ کوئی اعتکاف میں بیٹھا ہے۔اعتکاف کے وقت پردہ کر لینا بہتر ہے تاکہ دیکھنے والوں کو اس کی حالت کا احساس نہ ہو ، پردہ اس لئے کر لیتے ہیں کہ تمام لوگوں پر اس کا حال نہ کھلے کیونکہ اس کا سونا بھی عبادت اور جاگنا بھی عبادت ہے وہ اپنی مصروفیت میں رہتا ہے بعض مساجد میں لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ نماز پڑھی اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور نمازیوں کے چہرے دیکھنے لگتے ہیں یہ عام عادت ہے اور بہت ہی بری عادت ہے ، جب کوئی شخص اپنی عبادت میں ہو تو اس کی طرف دیکھنا نہیں چاہیے اگر نماز پڑھنے والا صاحب نسبت ہے یا کسی کیفیت میں ہے تو اس (دیکھنے والے) کی نسبت سلب ہو جائے گی کہ تو اسے پریشان کرنا چاہتا تھا اب خود پریشان ہو، حالت اعتکاف میں مسجد سے باہر نہیں نکل سکتے (سوائے حوائج ضروریہ کے) اگر مسجد کے ساتھ کوئی مزار ہو تو حالت اعتکاف میں مزار پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی، جنہوں نے خود زندگی بھر شریعت کا عَلم بلند کیا ہو وہ کب شریعت سے ہٹنے دیتے ہیں۔
اس لئے مسجد کی حدود میں رہنا چاہیے، مسجد ساری مقدس ہے اور مقام اعتکا ف ہے باہر قدم نہیں رکھ سکتے، کسی کو تکلیف نہ دو، دوسروں کو نہیں چھیڑا کرتے، کسی دوسرے کو مت چھیڑو۔ مت کسی کے بارے میں فتویٰ اور کوئی اپنے ذہن میں مت سوچے کہ میں اس سے برتر ہوں اور وہ مجھ سے کم تر ہے۔
بطور تدبیر دیہات میں خیال رکھنا چاہیے وہاں ایک قاعدہ ہے کہ مسجد کے مولوی کو اعتکاف میں بٹھا دیتے ہیں لیکن یہ اعتکاف نہیں ہوتا مولوی اگر خود اپنی مرضی سے اعتکاف میں بیٹھے تو یہ اس کی اپنی نیکی ہے اس مقصد کے لئے کسی کو پالنا جائز نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ جو لوگ مساجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہوں ان کو جا کر کبھی کبھی دیکھا کریں اور ان کا خیال رکھا کریں خدمت کے اعتبار سے بھی اور نگرانی کے اعتبار سے بھی اس میں مصلحت کی بات ہے اس ضمن میں ایک واقعہ کا ذکر فرمایا کہ کسی مسجدکے اندر سے دھواں نکل رہا تھا لوگ بھاگے کہ شاید آگ لگ رہی ہے اندر سے دروازہ بند تھا جب دروازہ زبردستی کھلوایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سگریٹ کا دھواں تھا جو غالبا ً کسی اعتکاف میں بیٹھے ہوئے شخص کا کام تھا۔
حضور نے فرمایا کہ ایک اصول یاد رکھنا حالت اعتکاف کے اندر سوائے راہ حق کے اور کوئی بات نہیں ہوتی اگر کوئی شخص اس قسم کی باتیں کرتا ہے اور کسی کی بات سے طبیعت بوجھل ہو تو پیچھے رجوع کر لیا کریں اس طرح کی باتیں بے خبر لوگ کیا کرتے ہیں آپ اس کے لئے بالکل متفکر نہ ہو ں اس سے مزید بات نہ کرنا۔رمضان المبارک پورا مہینہ ایک نوعیت کے روحانی اعتکاف کا ہے۔
ایک اعتکاف جسمانی ہے ، ایک احساسات کا ہے، روحانی اس sense میں کہ سارا ظاہر و باطن، کیفیات، احساسات ایک ضبط اور نظم میں پابند ہوتا ہے۔ ادراک بھی اس میں شریک ہوتا ہے۔ جس طرح روزے کی شرائط میں ہے کہ کوئی غذا نہ کھائے پیئے اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ کسی کو گالی نہ دے۔ کسی سے جھگڑے نہیں۔ یہاں تک حکم ہے کہ اگر کوئی جھگڑنے لگے تو اسے اشارہ کر دے کہ میں روزے سے ہوں۔ اس کو اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں اجر مل جائے گا۔ دل کو صاف کرے اور اتباع کا اجر مل جائے گا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu