Open Menu

Hazrat Ali RA - Article No. 941

Hazrat Ali RA

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ - تحریر نمبر 941

حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کے چہیتے چچا ابو طالب کے بیٹے تھے اور بچپن سے ہی حضورﷺ کے زیر سایہ تربیت پائی تھی بعثت کے بعد جب حضور ﷺ نے اپنے قبیلہ بنی ہاشم کے سامنے اسلام پیش کیا

جمعرات 18 جون 2015

تعارف:
حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کے چہیتے چچا ابو طالب کے بیٹے تھے اور بچپن سے ہی حضورﷺ کے زیر سایہ تربیت پائی تھی بعثت کے بعد جب حضور ﷺ نے اپنے قبیلہ بنی ہاشم کے سامنے اسلام پیش کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے لبیک کہی اور ایمان لے آئے۔اس وقت آپ کی عمر آٹھ برس کی تھی ہجرت کی رات آنحضرتﷺ آپ کو ہی اپنے بستر پر لٹا کر مدینہ روانہ ہوئے تھے۔
ماسوائے تبوک کے تمام غزوات حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔لڑائی میں بے نظیر شجاعت اور کمال جو انمردی کا ثبوت دیا۔آحضرت ﷺ کی چہیتی بیٹی فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہ کی شادی آپ ہی کے ساتھ ہوئی تھی۔حضور ﷺ کی طرف سے خطوط اور عہد نامے بھی بالعموم آپ ہی لکھا کرتے تھے۔پہلے تین خلفاء کے زمانے میں آپ کو مشبرخاص کا درجہ حاصل رہا اور ہر اہم کام آپ کی رائے سے انجام پاتا تھا۔

(جاری ہے)


انتخاب:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہدات کے بعد تین دن تک کوئی جانشین منتخب نہ ہوا۔ہر طرف باغیوں کا زور تھا اور مدینہ میں عجیب افراتفری مچی ہوئی تھی۔انتظام بحال کرنے کے لیے ضروری تھا کہ فوری طور پر خلیفہ کاا نتخاب کیا جائے اس لیے انصاروسہاجد بزرگوں نے اکٹھے ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ خلافت کا عہدہ قبول کریں۔
آپ نے بار بار انکار کیا لیکن بالا خرمان گئے۔ چنانچہ ذی الحجہ535میں عام بیعت ہوئی اور آپ نے مسند خلافت پر قدم رکھا۔
سیرت اور عہد خلافت پر تبصرہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ میں سب سے پہلے چیز آپ کی شجاعت ہے۔ سخت سے سخت معر کوں میں بھی آپ ثابت قدم رہے ۔بڑے بڑے جنگو آپ کے سامنے آنے کی جر ات نہ کرتے تھے۔آپ کی تلوار کی کاٹ ضرب المثل ہوچکی ہے۔
شجاعت کے علاوہ علم وفضل میں بھی کمال حاصل تھا۔ایک فقیہ کی حیثیت سے آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔آپ کے خطبات سے کمال کی خوش بیانی اور فصاحت ٹپکتی ہے۔ حدیث مشہور ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: میں علم کا شہر اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہیں۔
آپ کا عہد خلافت سارے کاسارا خانہ جنگیوں میں گزرا۔اس لیے آپ کو نظام حکومت کی اصلاح کے لیے بہت کم وقت ملا۔
تاہم آپ سے جہاں تک ممکن ہوا اسے بہتر بنانے کی پوری کوشش کی۔ فوجی چھاؤنیوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔صیغہ مال میں بہت سی اصلاحات کیں ۔جس سے بیت المال کی آمدنی بڑھ گئی۔عمال کے اخلاق کی نگرانی خود کرتے اور احتساب فرماتے۔خراج کی آمدنی کا نہایت سختی سے حساب لیتے۔ذمیوں کے حقوق کا خاص خیال رکھتے۔ عدل وانصاف کارنگ فاروق کے عہد سے کسی طرح کم نہ تھا۔
محکسہ پولیس جس کی بنیاد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رکھی تھی۔اس کی تکمیل بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوئی اور ایک باقاعدہ پولیس کے دستہ کا قیام عمل میں آیا جسے شرطہ کہتے تھے۔ اس کے اقسراعلیٰ کو صاحب الشرطہ اس کے فرائض میں حفظ امن اور جرائم کی روک تھام کے علاوہ منڈیوں کی دیکھ بھال بھی شامل تھی۔
شہادت:
خارجی نہروان کی شکست کے بعد خاموش نہ بیٹھے تھے ان کے تین جانباروں نے فیصلہ کیا کہ ایک دن مقرر کر کے حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ والئی مصر کو قتل کردیا جائے۔
چنانچہ تینوں اپنے اپنے سفر پر چل پڑے۔ابن سلجم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا ذمہ لیا۔تینوں نے تجویز کے مطابق ایک ہی دن فجر کی نماز کے وقت وار کیے۔امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر وار اوچھا پڑا۔عمروبن العاص نے اس دن اپنی جگہ کسی اور آدمی کو مسجد میں بھیج دیا تھا۔چنانچہ ان کی بجائے وہ آدمی قتل ہوگیا۔لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو زہر آلود خنجر کا کاری زخم لگا۔جس کے باعث حملہ کے تیسرے روز یعنی 20رمضان 24رمضان کو رحلت فرماگئے۔انتقال سے پہلے تاکید کی کہ میرے قصاص میں صرف قاتل ہی کو قتل کیا جائے کسی اور مسلمان کا خون نہ بھایا جائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu