Open Menu

Umm Ul Momnin - Article No. 946

Umm Ul Momnin

اُمّ الموٴمنین حضرت سیّدہ خدیجةُ الکبریٰ - تحریر نمبر 946

آپ کا نام (حضرت) خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے۔ نبی کریمﷺ کے اِعلانِ نبوت سے قبل وہ عفت و پاکدامنی کے باعث عہدِ جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنت زاہدہ ہے

پیر 29 جون 2015

علامہ منیر احمد یوسفی:
آپ کا نام (حضرت) خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے۔ نبی کریمﷺ کے اِعلانِ نبوت سے قبل وہ عفت و پاکدامنی کے باعث عہدِ جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنت زاہدہ ہے۔ آپ کا سلسلہء نسب اِس طرح ہے‘(حضرت) خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت خویلد بن اسعد بن عبد العزی بن قصی۔
قصی پر پہنچ کر آپ کا خاندان رسولِ کریمﷺ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ آپ کے والد قبیلہ میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ مکہ مکرّمہ میں سکونت اِختیار کی اور بنو عبدالدار کے حلیف بنے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ کا نکاح عامر بن لوی کے خاندان میں ہوا۔ اُن کے بطن سے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیدا ہوئیں۔

(جاری ہے)

حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب جوان ہوئیں تو اُن کے والدین نے اْن کی شادی ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے کی۔

اِن سے اُن کے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام ہند تھا اور دوسرے کانام حارث۔ کچھ عرصہ بعد ابوہالہ بن زرارہ تمیمی کا اِنتقال ہو گیا۔ اِس کے اِنتقال کے کچھ عرصہ کے بعد حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عتیق بن عابد مخزومی کے نکاح میں آئیں۔ اِن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی اُس کا نام بھی ہند تھا۔ اِس لڑکی کے نام کی وجہ سے آپ اْمّ ہند کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹے ہند نے اوّل اِسلام قبول کیا۔ نہایت فصیح و بلیغ تھے۔ اَمیر الموٴمنین حضرت سیّدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگِ جمل میں شریک تھے اور شہید ہوئے۔
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک کامیاب اور متمول تاجرہ تھیں۔ مکارمِ اَخلاق کا پیکرِ جمیل تھیں۔ رحمدلی ‘ غریب پروری اور سخاوت آپ کی اِمتیازی خصوصیات تھیں۔

حضرت ابنِ اسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا شمار مکہ مکرمہ کی شریف ترین معزز اور مالدار خواتین میں ہوتا تھا۔ وہ مکہ مکرمہ کے دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر بطورِ مضاربت تجارت کرتیں اور اپنا تجارتی مال مکہ مکرمہ سے باہر بھیجا کرتی تھیں۔ جتنا سامانِ تجارت سارے اہل قافلہ کا ہوتا اُتنا اکیلے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہوتا۔
آپ اپنے نمائندوں کو سامانِ تجارت دے کر روانہ فرماتیں‘ جو آپ کی طرف سے کاروبار کرتے اُْس کی دو صورتیں تھیں یا وہ ملازم ہوتے اُن کی اُجرت یا تنخواہ مقرر ہوتی جو اْنہیں دی جاتی‘ نفع و نقصان سے اُنہیں کوئی سروکار نہ ہوتا یا نفع میں اُن کا کوئی حصّہ‘ نصف‘ تہائی یا چوتھائی مقرر کر دیا جاتا اگر نفع ہوتا تو وہ اپنا حصّہ لے لیتے۔
بصورتِ نقصان ساری ذمہ داری حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر ہوتی۔جب پیارے نبی ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی درخواست پر انکا سامان لیکر شام گئے۔
جب قافلے نے اپنا تجارتی سامان فروخت کرکے فراغت پائی تو مال میں معمول سے دو چند نفع ملا۔ وہ واپس چلے تو مقام مرالظہران میں پہنچ کے حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے عرض کیا‘ یا محمدﷺ آپﷺ‘ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چل دیجئے۔
آپﷺ کے باعث‘ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے نفع دیا ہے‘ اُس کی حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اِطلاع کیجئے۔ وہ آپﷺ کا حق یاد رکھیں گی۔ رسولِ کریم ﷺاِس رائے کے مطابق پہلے روانہ ہو گئے۔ یہاں تک کہ ظہر کے وقت مکہ مکرّمہ پہنچے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بالا خانے پر بیٹھی ہوئی تھیں‘ دیکھا کہ رسولِ کریمﷺ اُونٹ پر سوار تشریف لا رہے ہیں اور دو فرشتے اِدھر اُدھر سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی عورتوں کو یہ نظارہ دِکھایا تووہ بھی اِس دِلکش منظر کو دیکھ کر خوش ہوئیں۔ میسرہ جو ہم سفر تھا اُس نے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتایا کہ میں یہ منظر سارے راستے دیکھتا آیا ہوں۔ میسرہ نے وہ باتیں بھی کہہ دیں جو نسطور راہب نے کہیں تھیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو معاوضہ مقرر کر رکھا تھا۔
تجارتی قافلہ کے دوچند منافع کی وجہ سے آپ کا منافع بھی دوچندکر دیا۔ (طبقات ابن سعد‘ البدایہ والنہایہ)
اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خوا ب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب اُن کے گھر میں اْتر آیا ہے اور اُس کا نور اُن کے گھر سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کا کوئی گھر اَیسا نہیں تھا جو اْس نور سے روشن نہ ہوا ہو۔
جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خواب اپنے چچا ورقہ بن نوفل سے بیان کیا۔ اْس نے خواب کی یہ تعبیر دی کہ نبی آخرالزماںﷺ تم سے نکاح کریں گے۔
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب نبی کریم ﷺکی زوجیت میں آئیں تو اُس وقت آپ کی عمر 40 سال تھی جبکہ سرکارِ کائناتﷺ کی عمر 25 سال تھی۔ تاریخ معین پر حضرت ابو طالب اور تمام روسائے خاندان جن میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر آئے۔ حضرت ابو طالب نے خطبہء نکاح پڑھا۔ پانچ طلائی درہم حق مہر قرار پایا۔ نکاح کے بعد آپ 25 برس تک زندہ رہیں۔ اْن کی زندگی میں نبی کریمﷺ نے دوسری شادی نہیں فرمائی۔
اُمّ الموٴمنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کی خدمت کے لئے پیش کیا جو یمن کے قبیلہ بنو قضاعہ کے سردار حارثہ بن شرح کا بیٹا تھا۔
بچپن میں ڈاکووٴں نے اُسے پکڑ لیا تھا اور عکاظ کے میلہ میں آ کر بیچ دیا تھا اور حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھانجے حضرت حکیم بن حزام بن خویلد نے اِس غلام کو خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نذر کر دیا تھا۔
حضرت جبرا ئیل علیہ السلام جب پہلی وحی لے کر آئے اور عرض کیا اِقْرَاءْ بِاسْمِ َربِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍo اِقْرَاءْ وَرَبّْکَ الْاَکْرَمْo رسولِ کریمﷺ اِن آیاتِ مبارکہ کو لے کر لوٹے آپﷺ کا قلب مضطرب تھا۔
آپﷺ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے گئے۔ آپﷺ نے فرمایا: مجھے کپڑوں میں لپیٹ لو۔ مجھے کپڑوں میں لپیٹ لو۔ حتیٰ کہ آپﷺ کا اِضطراب جاتا رہا۔ آپﷺ نے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرشتے کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے اِرشادِ مبارک فرمایا! مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب میں عرض کیا: ”نہیں نہیں آپﷺ کو ڈر کاہے کا۔
بخدا‘ اللہ آپﷺ کو ہر ایک مشقت سے بچائے گا۔ بے شک آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں‘ اہل قرابت سے عمدہ سلوک کرتے ہیں درد مندوں کی دستگیری کرتے ہیں تہی دستوں کی مدد فرماتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں‘ اصلی مصیبت زدوں کی امداد فرماتے ہیں۔“ (بخاری حدیث نمبر 3)
حضرت ابو طالب کی وفات کے چند ہی روز تقریباً 35 دن بعد 10 رمضان المبارک کو حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وصال فرما گئیں۔
آپﷺ کے دونوں مددگار اور غمگسار اْٹھ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جو اِسلام کے لئے سخت ترین تھا۔ خود نبی کریمﷺ اِس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال فرمایا کرتے تھے۔
اُمّْ الموٴمنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے 65 سال کی عمر میں وفات پائی۔ حجون کے قبرستان میں آپ کو دفن کیا گیا۔ اَبھی تک نماز جنازہ کا آغاز نہیں ہوا تھا جب مرقد پاک تیار ہوگئی تو حضور نبی کریمﷺ خود اْس میں تشریف لے گئے پھر اُس قبر اَنور میں حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ا ٓ کے سپرد فرما دیا۔

خراجِ شفقت :
اُمّ الموٴمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔ آپﷺ نے اِن الفاظ میں اُمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خراجِ شفقت عطا فرمایا : ”وہ مجھ پر اِیمان لائیں جب اَوروں نے کفر کیا۔ اُس نے میری تصدیق کی جبکہ اَوروں نے مجھے جھٹلایا اُس نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور مجھے کسبِ مال سے روکا۔
آ نے مجھے اُس کے بطن سے اَولاد دی جبکہ کسی دوسری بیوی سے نہ ہوئی۔( الاستعیاب‘ رحمة اللعالمین جلد 2‘ سیرت النبی جلد 2)
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ پہلی عظیم خاتونِ اوّل ہیں جن پر اِسلام کی حقیقت سب سے پہلے روشن ہوئی اور اُنہوں نے حضور نبی کریمﷺ کی تصدیق کی اور اپنا تمام مال رسولِ کریمﷺ کی رضاکی خاطر خرچ کیا۔

حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیلئے بکری ذبح کرنا:
اُمّ الموٴمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: ”میں نے نبی کریمﷺ کی ازواجِ پاک میں سے کسی پر اِتنی غیرت نہ کی جتنی (حضرت سیّدہ) خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر غیرت کی‘ حالانکہ میں نے اُنہیں نہ دیکھا تھا لیکن حضور نبی کریمﷺ اُن کا بہت ذکرِ خیر فرماتے تھے۔
بہت مرتبہ بکری ذبح فرماتے پھر اُس کے اَعضا کاٹتے پھر وہ (اُمّ الموٴمنین حضرت سیّدہ) خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کو بھیج دیتے تھے۔ تو میں کبھی آپﷺ سے عرض کر دیتی کہ گویا (اُمّ الموٴمنین حضرت سیّدہ) خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا دُنیا میں کوئی عورت ہی نہ تھی۔ تو آپﷺ فرماتے وہ اَیسی تھی وہ اَیسی تھی اوراُن سے میری اَولاد ہوئی۔“( بخاری، مسلم، ترمذی، مسند احمد ‘ مشکوٰة، مرقاة، شرح السنة، ابن ماجہ)

Browse More Islamic Articles In Urdu