Open Menu

Al Raheeq Almakhtoom .... Nabi (PBUH) Ki Hijrat - Article No. 1667

Al Raheeq Almakhtoom .... Nabi (PBUH) Ki Hijrat

الرحیق المختوم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت - تحریر نمبر 1667

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ چھوڑا تو قریش نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اُتارا، آپ کو گھسیٹ کر خانہ کعبہ تک لے گئے اور ایک گھڑی زیر حراست رکھا

maulana safiur rahman mubarakpuri مولانا صفی الرحمان مبارک پوری ہفتہ 3 مارچ 2018

جب نبیﷺ کے قتل کی مجرمانہ قرارداد طے ہو چکی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنے رب تبارک و تعالیٰ کی وحی لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کویہاں سے روانگی کی اجازت دے دی ہے اور یہ کہتے ہوئے ہجرت کے وقت کا تعین بھی فرما دیا کہ آپﷺ یہ رات اپنے اس بستر پر نہ گزاریں جس پر اب تک گزارا کرتے تھے۔

اس اطلاع کے بعد نبیﷺ ٹھیک دوپہر کے وقت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے تاکہ ان کے ساتھ ہجرت کے سارے پروگرام اور مرحلے طے فرمائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ٹھیک دوپہر کے وقت ہم لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مکان میں بیٹھے تھے کہ کسی کہنے والے نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا، یہ رسول اللہﷺ سر ڈھانکے تشریف لا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ ایسا وقت تھا جس میں آپﷺ تشریف نہیں لایا کرتے تھے، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان آپﷺ اس وقت کسی اہم معاملے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے، اجازت طلب کی، آپﷺ کو اجازت دی گئی اور آپﷺ اندر داخل ہوئے، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تمہارے جو لوگ ہیں انہیں ہٹا دو، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا بس آپﷺ کے اہل خانہ ہی ہیں، آپﷺ پر میرے باپ فدا ہوں اے اللہ کے رسول اللہﷺ۔
آپ نے فرمایا اچھا تو مجھے روانگی کی اجازت مل چکی ہے، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا ساتھ ۔۔۔۔۔اے اللہ کے رسول ﷺ میرے باپ آپﷺ پر فدا ہوں، رسول اللہﷺ نے فرمایا، ہاں۔
اس کے بعد ہجرت کا پروگرام طے کر کے رسول اللہﷺ اپنے گھر واپس تشریف لائے اور رات کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔
رسول اللہﷺ کے مکان کا گھیراؤ
ادھر قریش کے اکابر مجرمین نے اپنا سارا دن مکے کی پارلیمان دارالندوہ کی پہلے پہر کی طے کردہ قرارداد کے نفاذ کی تیاری میں گزارا اور اس مقصد کے لیے ان اکابر مجرمین میں سے گیارہ سردار منتخب کئے جن کے نام یہ ہیں:
ابو جہل بن ہشام، 2۔ حکم بن عاص
3۔ عقبہ بن ابی معیط، 4۔ نضر بن حارث
5۔ امیہ بن خلف، 6۔ زمعہ بن الاسود
7۔ طعیمہ بن عدی، 8۔ ابو لہب
9۔ ابی بن خلف، 10۔ نبیہ بن الحجاج
11۔ اور اس کا بھائی منبہ بن الحجاج
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب رات ذرا تاریک ہوگئی تو یہ لوگ گھات لگاکر نبی ﷺ کے دروازے پر بیٹھ گئے کہ آپﷺ سو جائیں تو یہ لوگ آپﷺ پر ٹوٹ پڑیں۔
ان لوگوں کا پورا وثوق اور پختہ یقین تھا کہ ان کی یہ ناپاک سازش کامیاب ہوکر رہے گی یہاں تک کہ ابو جہل نے بڑے متکبرانہ اور پر غرور انداز میں مذاق و استہزاء کرتے ہوئے اپنے گھیرا ڈالنے والے ساتھیوں سے کہا محمد ﷺ کہتا ہے کہ اگر تم لوگ اس کے دین میں داخل ہو کر اس کی پیروی کرو گے تو عرب و عجم کے بادشاہ بن جاؤ گے، پھر مرنے کے بعد اٹھائے جاوٴ گے تو تمہارے لیے اردن کے باغات جیسی جنتیں ہوں گی۔
اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ان کی طرف سے تمہارے اندر ذبح کے واقعات پیش آئیں گے، پھر تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے اور تمہارے لیے آگ ہوگی، جس میں جلائے جاؤ گے۔
بہرحال اس سازش کے نفاذ کے لیے آدھی رات کے بعد وقت مقرر تھا اس لیے یہ لوگ جاگ کر رات گزارتے تھے اور وقت مقررہ کے منتظر تھے لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے، اسی کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جسے بچانا چاہے کو ئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتااور جسے پکڑنا چاہے کوئی اس کو بچا نہیں سکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر وہ کام کیا جسے قرآن کی آیت کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ (ترجمہ)
”وہ موقع یاد کرو جب کفار تمہارے خلاف سازش کر رہے تھے تاکہ تمہیں قید کر دیں یا قتل کر دیں یا نکال باہر کریں اور وہ لوگ داؤ چل رہے تھے اور اللہ بھی داؤ چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر داؤ والا ہے۔

رسول اللہﷺ اپنا گھر چھوڑتے ہیں
بہرحال قریش اپنے پلان کے نفاذ کی انتہائی تیاری کے باوجود فاش ناکامی سے دوچار ہوئے چنانچہ اس نازک ترین لمحے میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم بستر پر لیٹ جاؤ اور میری یہ سبز حضری (یعنی حضرت موت) (جنوبی یمن کی بنی ہوئی چادر حضری کہلاتی ہے) چادر اوڑھ کر سو رہو، اس کے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے گا، رسول اللہﷺ یہی چادر اوڑھ کر سویا کرتے تھے۔
اس کے بعد رسول اللہﷺ باہر تشریف لے آئے، مشرکین کی صفیں چیریں اور ایک مٹھی سنگریزوں والی مٹی لے کر ان کے سروں پر ڈالی لیکن اللہ نے ان کی نگاہیں پکڑ لیں اور وہ آپﷺ کو دیکھ نہ سکے، اس وقت آپﷺ یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے: (ترجمہ)
”ہم نے ان کے آگے رکاوٹ کھڑی کر دی اور ان کے پیچھے رکاوٹ کھڑی کر دی پس ہم نے انہیں ڈھانک لیا ہے اور وہ دیکھ نہیں رہے ہیں۔

اس موقع پر کوئی بھی مشرک باقی نہ بچا جس کے سر پر آپﷺ نے مٹی نہ ڈالی ہو، اس کے بعد آپﷺ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور پھر ان کے مکان کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے رات ہی رات یمن کا رخ کیا اور چند میل پر واقع ثور نامی پہاڑ کے ایک غار میں جا پہنچے۔
ادھر محاصرین وقت صفر کا انتظار کر رہے تھے لیکن اس سے ذرا پہلے انہیں اپنی ناکامی و نامرادی کا علم ہو گیا۔
ہوا یہ کہ ان کے پاس ایک غیر متعلق شخص آیا اور انہیں آپﷺ کے دروازے پر دیکھ کر پوچھا کہ آپ لوگ کس کا انتظار کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا محمدﷺ کا، اس نے کہا آپ لوگ ناکام و نامراد ہوئے، خدا کی قسم محمد ﷺ تو آپ لوگوں کے پاس سے گزرے اور آپ کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے اپنے کام کو گئے، انہوں نے کہا بخدا ہم نے تو انہیں نہیں دیکھا اور اس کے بعد سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھ پڑے۔

لیکن پھر دروازے کی دراز سے جھانک کر دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر آئے، کہنے لگے خدا کی قسم یہ تو محمدﷺ سوئے پڑے ہیں، ان کے اوپر ان کی چادر موجود ہے چنانچہ یہ لوگ صبح تک وہیں ڈٹے رہے، ادھر صبح ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بستر سے اٹھے تو مشرکین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسو ل اللہﷺ کہاں ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے معلوم نہیں۔

گھر سے غار تک
رسول اللہﷺ 27 صفر 14 نبوت مطابق 12، 13 ستمبر 622 ء (رحمة للعالمین 95/1 صفر کایہ مہینہ چودھویں سنہ نبوت کا اس وقت ہوگا جب سنہ کا آغاز محرم کے مہینے سے مانا جائے اور اگر سنہ کی ابتداء اسی مہینے سے کریں جس میں آپﷺ کو نبوت سے مشرف کیا گیا تھا تو صفر قطعی طور پر تیرہویں سنہ نبوت کا ہوگا، عام اہل سیر کہیں پہلا حساب اختیار کیا ہے اور کہیں دوسرا جس کی وجہ واقعات کی ترتیب میں خبط اور غلطی میں پڑگئے ہیں، ہم نے سنہ کا آغاز محرم سے مانا ہے) کی درمیانی رات اپنے مکان سے نکل کر جان و مال کے سلسلے میں اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور وہاں سے پچھواڑے کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے باہر کی راہ لی تاکہ مکہ سے جلد از جلد یعنی طلوع فجر سے پہلے پہلے باہر نکل جائیں۔

چونکہ نبیﷺ کو معلوم تھا کہ قریش پوری جانفشانی سے آپﷺ کی تلاش میں لگ جائیں گے اور جس راستے پر پہلے ان کی نظر اٹھے گی وہ مدینہ کا کاروانی راستہ ہوگا جو شمال کے رخ پر جاتا ہے اس لیے آپﷺ نے وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے بالکل الٹ تھا یعنی یمن جانے والا راستہ، جو مکہ کے جنوب میں واقع ہے، آپ ﷺ نے اس راستے پر کوئی پانچ میل کا فاصلہ طے کیا اور اس پہاڑ کے دامن میں پہنچے جو ثور کے نام سے معروف ہے، یہ نہایت بلند، پر پیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے، یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں جن سے رسول اللہ ﷺ کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے اور کہا جاتا ہے کہ آپﷺ نشان قدم چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چل رہے تھے اس لیے آپﷺ کے پاؤں زخمی ہوگئے بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر آپﷺ کو اٹھا لیا اور دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار کے پاس جا پہنچے جو تاریخ میں غارِ ثور کے نام سے معروف ہے۔

غار میں
غار کے پاس پہنچ کر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کے لیے ابھی آپﷺ اس میں داخل نہ ہوں، پہلے میں داخل ہو کر دیکھے لیتا ہوں، اگر اس میں کوئی چیز ہوئی تو آپﷺ کے بجائے مجھے اس سے سابقہ پیش آئے گا چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اندر گئے اور غار کو صاف کیا، ایک جانب چند سوراخ تھے جنہیں اپنا تہ بند پھاڑ کر بند کیا لیکن دو سوراخ باقی بچ رہے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں پر اپنے پاؤں رکھ دیے۔
پھر رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ اندر تشریف لائیں۔ آپﷺ اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی آغوش میں سر رکھ کر سو گئے۔ ادھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاؤں میں کسی چیز نے ڈس لیا مگر اس ڈر سے ہلے بھی نہیں کہ رسول اللہﷺ جاگ نہ جائیں لیکن ان کے آنسو رسول اللہﷺ کے چہرے پر ٹپک گئے اور آپﷺ کی آنکھ کھل گئی، آپﷺ نے فرمایا ابو بکر تمہیں کیا ہوا، عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان، مجھے کسی چیز نے ڈس لیا، رسول اللہﷺ نے اس پر لعاب دہن لگا دیا اور تکلیف جاتی رہی۔
(یہ بات رزین نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ پھر یہ زہر پھوٹ پڑا یعنی موت کے وقت اس کا اثر پلٹ آیا اور یہی موت کا سبب بنا)
یہاں دونوں حضرات نے تین راتیں جمعہ، سنییچر اور اتوار کی راتیں چھپ کر گزاریں، اس دوران ابو بکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ بھی یہیں رات گذارتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ گہری سوجھ بوجھ کے مالک سخن فہم نوجوان تھے، سحر کی تاریکی میں ان دونوں حضرات کے پاس چلے جاتے اور مکہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے گویا انہوں نے یہیں رات گزاری ہے، پھر آپ دونوں کے خلاف سازش کی جو کوئی بات سنتے اسے اچھی طرح یاد کر لیتے اور جب تاریکی گہری ہو جاتی تو اس کی خبر لے کر غار میں پہنچ جاتے۔

ادھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے اس طرح دونوں حضرات رات کو آسودہ ہو کر دودھ پی لیتے، پھر صبح تڑکے عامر بن فہیرہ بکریاں ہانک کر چل دیتے، تینوں رات انہوں نے یہی کیا۔ (مزید یہ کہ) عامر بن فہیرہ حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مکہ جانے کے بعد انہیں نشانات قدم پر بکریاں ہانکتے تھے تاکہ نشانات مٹ جائیں۔

قریش کی تگ و دو
ادھر قریش کا یہ حال تھا کہ جب منصوبہ قتل کی رات گزر گئی اور صبح یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ رسول اللہﷺ ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں تو ان پر گویا جنون طاری ہو گیا۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اُتارا، آپ کو گھسیٹ کر خانہ کعبہ تک لے گئے اور ایک گھڑی زیر حراست رکھا کہ ممکن ہے ان دونوں کی خبر لگ جائے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ حاصل نہ ہوا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، حضرت اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا برآمد ہوئیں، ان سے پوچھا تمہارے ابا کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا بخدا مجھے معلوم نہیں کہ میرے ابا کہاں ہیں، اس پر کمبخت خبیث ابو جہل نے ہاتھ اٹھا کر ان کے رخسار پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی گر گئی۔

اس کے بعد قریش نے ایک ہنگامی اجلاس کرکے یہ طے کیا کہ ان دونوں کو گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکنہ و سائل کام میں لائے جائیں، چنانچہ مکے سے نکلنے والے تمام راستوں پر خواہ وہ کسی بھی سمت جارہا ہو نہایت کڑا مسلح پہرہ بٹھا دیا گیا، اس طرح یہ اعلان عام بھی کیا گیا کہ جوکوئی رسول اللہ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کو یا ان میں سے کسی ایک کو زندہ یا مردہ حاضر کرے گا اسے ہر ایک کے بدلے سو اونٹوں کا گرانقدر انعام دیا جائے گا۔
اس اعلان کے نتیجے میں سوار اور پیادے اور نشانات قدم کے ماہر کھوجی نہایت سرگرمی سے تلاش میں لگ گئے اور پہاڑیوں، وادیوں اور نشیب و فراز میں ہر طرف بکھر گئے لیکن نتیجہ اور حاصل کچھ نہ رہا۔
تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک بھی پہنچے لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نبیﷺ کے ساتھ غار میں تھا، سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پاؤں نظر آ رہے ہیں، میں نے کہا اے اللہ کے نبیﷺ اگر ان میں سے کوئی شخص محض اپنی نگاہ نیچی کر دے تو ہمیں دیکھ لے گا۔
آپﷺ نے فرمایا ابو بکر رضی اللہ عنہ خاموش رہو، (ہم) دو ہیں جن کا تیسرا اللہ ہے، ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: (ترجمہ)
”ابو بکر رضی اللہ عنہ! ایسے دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو مشرف فرمایا، چنانچہ تلاش کرنے والے اس وقت واپس چلے گئے جب آپﷺ کے درمیان اور ان کے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ باقی نہ رہ گیا تھا۔

مدینہ کی راہ میں
جب جستجو کی آگ بجھ گئی، تلاش کی تگ و دو رک گئی اور تین روز کی مسلسل اور بے نتیجہ دوڑ دھوپ کے بعد قریش کے جوش و جذبات سرد پڑ گئے تو رسول اللہﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے لیے نکلنے کا عزم فرمایا، عبداللہ بن اریقط ینثی سے، جو صحرائی اور بیابانی راستوں کا ماہر تھا، پہلے ہی اجرت پر مدینہ پہنچانے کا معاملہ طے ہو چکا تھا، یہ شخص ابھی قریش ہی کے دین پر تھا لیکن قابل اطمینان تھا اس لیے سواریاں اس کے حوالے کر دی گئی تھیں اور طے ہوا تھا کہ تین راتیں گزر جانے کے بعد وہ دونوں سواریاں لے کر غار ثور پہنچ جائے گا چنانچہ جب دو شنبہ کی رات آئی جو ربیع الاول 1 ہجری کی چاند رات تھی (مطابق 16 ستمبر 622ء) تو عبداللہ بن اریقط سواریاں لے کر آگیا اور اسی موقع پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں افضل ترین اونٹنی پیش کرتے ہوئے گذارش کی کہ آپ میری ان دو سواریوں میں سے ایک قبول فرما لیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا قیمتاً لوں گا۔

ادھر اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بھی زاد سفر لے کر آئیں مگر اس میں لٹکانے والا بندھن لگانا بھول گئیں، جب روانگی کا وقت آیا اور حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے توشہ لٹکانا چاہا تو دیکھا کہ اس میں بندھن ہی نہیں ہے، انہوں نے اپنا پٹکا (کمر بند) کھولا اور دو حصوں میں چاک کر کے ایک میں توشہ لٹکا دیا اور دوسرا کمر میں باندھ لیا، اسی وجہ سے ان کا لقب ذات النظاقین پڑ گیا۔

اس کے بعد رسول اللہﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کوچ فرمایا۔ عامر بن فہیر رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے، رہنما عبداللہ بن ارلقیط نے ساحل کا راستہ اختیار کیا۔
غار سے روانہ ہو کر اس نے سب سے پہلے یمن کے رخ پر چلایا اور جنوب کی سمت خوب دور تک لے گیا، پھر پچھم کی طرف مڑا اور ساحل سمندر کا رخ کیا، پھر ایک ایسے راستے پر پہنچ کر جس سے عام لوگ واقف نہ تھے، شمال کی طرف مڑ گیا۔
یہ راستہ ساحل بحر احمر کے قریب ہی تھا اور اس پر شاذ و نادر ہی کوئی چلتا تھا۔ رسول اللہﷺ اس راستے میں جن مقامات سے گزرے ابن اسحاق نے ان کا تذکرہ کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب رہنما آپ دونوں کو ساتھ لے کر نکلا تو زیریں مکہ سے لے چلا، پھر ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا زیرین عسفان سے راستہ کاٹا، پھر زیرین امج سے گزرتا ہوا آگے بڑھا اور قدید پار کرنے کے بعد پھر راستہ کاٹا اور وہیں سے آگے بڑھتا ہوا خرار سے گزرا، پھر تنیہ المرة سے، پھر لقف سے، پھر بیابان لقف سے گزرا، پھر مجاح کے بیابان میں پہنچا اور وہاں سے ہو کر پھر مجاح کے موڑ سے گزرا، پھر ذوالغضوین کے موڑ کے نشیب میں چلا، پھر ذی کشر کی وادی میں داخل ہوا، پھر جدا جد کا رخ کیا، پھر اجرد پہنچا اور اس کے بعد بیابان تعہن کے اطراف کی وادی ذوسلم سے گزرا، وہاں سے عبا بید اور اس کے بعد فاجہ کا رخ کیا، پھر عرج میں اترا، پھر رکوبہ کے داہنے ہاتھ ثنیة العائر میں چلا، یہاں تک کہ وادی رئم میں اترا اور اس کے بعد قباء پہنچ گیا۔
آئیے اب راستے کے چند واقعات بھی سنتے چلیں۔
1۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”ہم لوگ غار سے نکل کر رات بھر اور دن میں دوپہر تک چلتے رہے، جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا، راستہ خالی ہو گیا اور کوئی گزرنے والا نہ رہا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی، جس کے سائے پر دھوپ نہیں آئی تھی، ہم وہیں اتر پڑے، میں نے اپنے ہاتھ سے نبیﷺ کے سونے کے لیے ایک جگہ برابر کی اور اس پر ایک پوستین بچھا کر گزارش کی کہ اللہ کے رسولﷺ آپ سو جائیں اور میں آپﷺ کے گرد و پیش کی دیکھ بھال کئے لیتا ہوں، آپﷺ سو گئے اور میں آپﷺ کے گرد و پیش کی دیکھ بھال کے لیے نکلا، اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چٹان کی جانب چلا آرہا ہے، وہ بھی اس چٹان سے وہی چاہتا تھا جو ہم نے چاہا تھا، میں نے اس سے کہا اے جوان تم کس کے آدمی ہو؟ اس نے مکہ یا مدینہ کے کسی آدمی کا ذکر کیا، میں نے کہا تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے؟ اس نے کہا ہاں، میں نے کہا دوہ سکتا ہوں؟ اس نے کہا ہاں اور ایک بکری پکڑی، میں نے کہا ذرا تھن کو مٹی، بال اور تنکے وغیرہ سے صاف کر لو، پھر اس نے ایک کاب میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے پاس ایک چرمی لوٹا تھا جو میں نے رسول اللہﷺ کے پینے اور وضو کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔
میں آپﷺ کے پاس آیا لیکن گوارا نہ ہوا کہ آپ کو بیدار کروں چنانچہ جب آپ بیدار ہوئے تو میں آپﷺ کے پاس آیا اور دودھ پر پانی انڈیلا یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہو گیا، اس کے بعد میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ پی لیجیے، آپ ﷺ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا، پھر آپﷺ نے فرمایا کیا ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا، میں نے کہا کیوں نہیں، اس کے بعد ہم لوگ چل پڑے۔

2۔ اس سفر میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نبیﷺ کے ردیف رہا کرتے تھے یعنی سواری پر حضورﷺ کے پیچھے بیٹھا کرتے تھے چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے اس لیے لوگوں کی توجہ انہیں کی طرف جاتی تھی، نبیﷺ پر ابھی جوانی کے آچار غالب تھے اس لیے آپﷺکی طرف توجہ کم جاتی تھی، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑنا تو وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پوچھتا کہ یہ آپ کے آگے کون سا آدمی ہے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ا س کا بڑا لطیف جواب دیتے، فرماتے یہ آدمی مجھے راستہ بتاتا ہے، اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ وہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں حالانکہ وہ خیر کا راستہ لیتے تھے۔

3۔ اس سفر میں آپﷺ کا گزر ام معبد خزاعیہ کے خیمے سے ہوا، یہ ایک نمایاں اور توانا خاتون تھیں، ہاتھوں میں گھٹنے ڈالے خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور آنے جانے والے کو کھلاتی پلاتی رہتیں، آپﷺ نے ان سے پوچھا کہ پاس میں کچھ ہے، بولیں، بخدا ہمارے پاس کچھ ہوتا تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی، بکریاں بھی دور دراز ہیں، یہ قحط کا زمانہ تھا۔

رسول اللہﷺ نے دیکھا کہ خیمے کے ایک گوشے میں ایک بکری ہے، فرمایا: ام معبد، یہ کیسی بکری ہے؟ بولیں، اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ آپﷺ نے دریافت کیا کہ اس میں کچھ دودھ ہے، بولیں، وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ آپﷺ نے فرمایا اجازت ہے کہ اسے دوہ لوں، بولیں ہاں میرے ماں باپ تم پر قربان، اگر تمہیں اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دوہ لو۔
اس گفتگو کے بعد رسول اللہﷺ نے اس بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا، اللہ کا نام لیا اور دعا کی، بکری نے پاؤں پھیلا دیئے، تھن میں بھرپور دودھ اتر آیا، آپﷺ نے ام معبد کا ایک بڑا سا برتن لیا جو ایک جماعت کو آسودہ کر سکتا تھا اور اس میں اتنا دوہا کہ جھاگ اوپر آ گیا، پھر اسی برتن میں دوبارہ اتنا دودھ دوہا کہ برتن بھر گیا اور اسے ام معبد کے پاس چھوڑ کر آگے چل پڑے، تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان کے شوہر ابو معید اپنی کمزور بکریوں کو، جو دبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں، ہانکتے ہوئے آ پہنچے، دودھ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے، پوچھا یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا؟ جبکہ بکریاں دور دراز تھیں اور گھر میں دودھ دینے والی بکری نہ تھی، بولیں بخدا کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے پاس سے ایک بابرکت آدمی گزرا جس کی ایسی اور ایسی بات تھی اور یہ اور یہ حال تھا۔
ابو معبد نے کہا یہ تو وہی صاحب قریش معلوم ہوتا ہے جسے قریش تلاش کر رہے ہیں۔ اچھا ذرا اس کی کیفیت تو بیان کرو۔ اس پر ام معبد نے نہایت دلکش انداز سے آپﷺ کے اوصاف و کمالات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ گویا سننے والا آپﷺ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے، یہ اوصاف سن کر ابومعبد نے کہا واللہ یہ تو وہی صاحب قریش ہے جس کے بارے میں لوگوں نے قسم قسم کی باتیں بیان کی ہیں، میرا ارادہ ہے کہ آپﷺ کی رفاقت اختیار کروں اور کوئی راستہ ملا تو ایسا ضرور کروں گا۔

ادھر مکے میں ایک آواز ابھری جسے لوگ سن رہے تھے مگر اس کا بولنے والا دکھائی نہیں پڑ رہا تھا، آواز یہ تھی:
”اللہ رب العرش ان دو رفیقوں کو بہترین جزا دے جو ام معبد کے خیمے میں نازل ہوئے، وہ دونوں خیر کے ساتھ اترے اور خیر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جو محمدﷺ کا رفیق ہوا وہ کامیاب ہوا، ہائے قصّی! اللہ نے اس کے ساتھ کتنے بے نظیر کارنامے اور سرداریاں تم سے سمیٹ لیں۔
بنو کعب کو ان کی خاتون کی قیام گاہ اور مومنین کی نگہداشت کا پڑاؤ مبارک ہو۔ تم اپنی خاتون سے اس کی بکری اور برتن کے متعلق پوچھو، تم اگر خود پوچھو گے تو وہ بھی شہادت دے گی۔“
حضرت اسما رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہمیں معلوم نہ تھا کہ رسول اللہﷺ نے کدھر کا رخ فرمایا ہے کہ ایک جن زیریں مکہ سے یہ اشعار پڑھتا ہوا آیا، لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، اس کی آواز سن رہے تھے لیکن خود اسے نہیں دیکھ رہے تھے یہاں تک کہ وہ بالائی مکہ سے نکل گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ جب ہم نے اس کی بات سنی تو ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ نے کدھر کا رخ فرمایا ہے، یعنی آپﷺ کا رخ مدینہ کی جانب ہے۔ ( بنو خزاعہ کی آبادی کے محل وقوع کو مدنظر رکھتے ہوئے اغلب یہ ہے کہ یہ واقعہ غار سے روانگی کے بعد دوسرے دن پیش آیا ہوگا)
4۔ راستے میں سراقہ بن مالک نے تعاقب کیا اور اس واقعے کو خود سراقہ نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں میں اپنی قوم بنی مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک آدمی آکر ہمارے پاس کھڑا ہوا اور ہم بیٹھے تھے اس نے کہا اے سراقہ میں نے ابھی ساحل کے پاس چند افراد دیکھے ہیں، میرا خیال ہے کہ یہ محمد ﷺ اور ان کے ساتھی ہیں، سراقہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیایہ وہی لوگ ہیں لیکن میں نے اس آدمی سے کہا کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں بلکہ تم نے فلاں اور فلاں کو دیکھا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے گزر کر گئے ہیں۔
پھر میں مجلس میں کچھ دیر تک ٹھرا رہا۔ اس کے بعد اٹھ کر اندر گیا اور اپنی لونڈٰ کو حکم دیا کہ وہ میرا گھوڑا نکالے اور ٹیلے کے پیچھے روک کر میرا انتظار کرے۔ ادھر میں نے اپنا نیزہ لیا اور گھر کے پچھواڑے سے باہر نکلا، لاٹھی کا ایک سرا زمین پر گھسیٹ رہا تھا اور دوسرا اوپری سرا نیچے کر رکھا تھا، اس طرح میں اپنے گھوڑے کے پاس پہنچا اور اس پر سوار ہو گیا۔
میں نے دیکھا کہ وہ حسب معمول مجھے لے کر دوڑ رہا ہے یہاں تک کہ میں ان کے قریب آ گیا، اس کے بعد گھوڑا مجھ سمیت پھسلا اور میں اس سے گر گیا۔ میں نے اٹھ کر ترکش کی طرف ہاتھ بڑھایا اور پانسے کے تیر نکال کر یہ جاننا چاہا کہ میں انہیں ضرر پہنچا سکوں گا یا نہیں تو وہ تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا لیکن میں نے تیر کی نافرمانی کی اور گھوڑے پر سوار ہوگیا وہ مجھے لے کر دوڑنے لگا یہاں تک کہ جب میں رسول اللہﷺ کی قرأت سن رہا تھا اور آپ التفات نہیں فرماتے تھے جبکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ بار بار مڑ کر دیکھ رہے تھے تو میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک جا پہنچے اور میں اس سے گرگیا، پھر میں نے اسے ڈانٹا تو اس نے اٹھنا چاہا لیکن وہ اپنے پاؤں بمشکل نکال سکا۔
بہرحال جب وہ سیدھا کھڑا ہوا تو اس کے پاؤں سے آسمان کی طرف دھوئیں جیسا غبار اڑ رہا تھا، میں نے پھر پھانسے کے تیر سے قسمت معلوم کی اور پھر وہی تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا، اس کے بعد میں نے امان کے ساتھ انہیں پکارا تو وہ لوگ ٹھہر گئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس پہنچا۔ جس وقت میں ان سے روک دیا گیا تھا اسی وقت میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ رسول اللہﷺ کا معاملہ غالب آکر رہے گا چنانچہ میں نے آپﷺ سے کہا کہ آپﷺ کی قوم نے آپﷺ کے بدلے دیت کا انعام رکھا ہے اور ساتھ ہی میں نے لوگوں کے عزائم سے آپﷺ کو آگاہ کیا اور توشہ اور ساز و سامان کی بھی پیش کش کی مگر انہوں نے میرا کوئی سامان نہیں لیا اور نہ مجھ سے کوئی سوال کیا، صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق رازداری برتنا، میں نے آپﷺ سے گزارش کی کہ آپﷺ مجھے پروا نہ امن لکھ دیں، آپﷺ نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر میرے حوالے کر دیا، پھر رسول اللہﷺ آگے بڑھ گئے۔

اس واقعے سے متعلق خود ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بھی ایک روایت ہے، ان کا بیان ہے کہ ہم لوگ روانہ ہوئے تو قوم ہماری تلاش میں تھی مگر سراقہ بن مالک بن حبشم کے سوا، جو اپنے گھوڑے پر آیا تھا اور کوئی ہمیں نہ پا سکا، میں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ یہ پیچھا کرنے والا ہمیں آ لینا چاہتا ہے، آپﷺ نے فرمایا:
”غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

بہرحال سراقہ واپس ہوا تو دیکھا کہ لوگ تلاش میں سرگرداں ہیں، کہنے لگا ادھر کی کھوج خبر لے چکا ہوں، یہاں تمہارا جو کام تھا وہ کیا جا چکا ہے، (اس طرح لوگوں کو واپس لے گیا) یعنی دن کے شروع میں تو چڑھ آرہا تھا اور آخر میں پاسبان بن گیا۔
5۔ راستے میں نبیﷺ کو بریدہ اسلمیٰ ملے، یہ اپنی قوم کے سردار تھے اور قریش نے جس زبردست انعام کا اعلان کر رکھا تھا اس کے لالچ میں نبیﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلے تھے لیکن جب رسول اللہﷺ سے سامنا ہوا اور ربات چیت ہوئی تو نقد دل دے بیٹھے اور اپنی قوم کے ستر آدمیوں سمیت وہیں مسلمان ہوگئے، پھر اپنی پگڑی اتار کر نیزہ سے باندھ لی جس کا سفید پھریرا ہوا میں لہراتا اور بشارت سناتا تھا کہ امن کا بادشاہ صلح کا حامی دنیا کا عدالت و انصاف سے بھرپور کرنے والا تشریف لارہا ہے۔

6۔ راستے میں نبیﷺ کو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ملے۔ یہ مسلمانوں کے ایک تجارت پیشہ گروہ کے ساتھ ملک شام سے واپس آرہے تھے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سفید پارچہ جات پیش کئے۔
قبا میں تشریف آوری
دو شنبہ 8 ربیع الاول 14 نبوت یعنی 1 ہجری مطابق 23 ستمبر 622 کو رسول اللہﷺ قبا میں وارد ہوئے۔
(اس دن نبیﷺ کی عمر بغیر کسی کمی بیشی کے ٹھیک ترپن سال ہوئی تھی اور جو لوگ آپﷺ کی نبوت کا آغاز 9 ربیع الاول 41 عام الفیل سے مانتے ہیں، ان کے قول کے مطابق آپﷺ کی نبوت کے تیرہ سال پورے ہوئے تھے البتہ جو لوگ آپﷺ کی نبوت کا آغاز رمضان 41 عام الفیل سے مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق بارہ سال پانچ مہینہ اٹھارہ دن یا بائیس دن ہوئے تھے)
حضرت عروة بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مسلمانان مدینہ نے مکہ سے رسول اللہﷺ کی روانگی کی خبر سن لی تھی اس لیے لوگ روزانہ صبح ہی صبح حرّہ کی طرف نکل جاتے اور آپﷺ کی راہ تکتے رہتے، جب دوپہر کو دھوپ سخت ہو جاتی تو واپس چلے آتے، ایک روز طویل انتظار کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ چکے تھے کہ ایک یہودی اپنے کسی ٹیلے پر کچھ دیکھنے کے لیے چڑھا، کیا دیکھتا ہے کہ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے رفقاء سفید کپڑوں میں ملبوس، جن سے چاندنی چھٹک رہی تھی، تشریف لا رہے ہیں، اس نے بے خود ہو کر نہایت بلند آواز سے کہا: عرب کے لوگو! یہ رہا تمہارا نصیب جس کا تم انتظار کر رہے تھے، یہ سنتے ہی مسلمان ہتھیاروں کی طرف دوڑ پڑے۔
( اور ہتھیار سج دھج کر استقبال کے لیے امڈ پڑے)
ابن قیم کہتے ہیں کہ ا س کے ساتھ ہی بنی عمرو بن عوف (ساکنان قباء) میں شور بلند ہوا اور تکبیر سنی گئی، مسلمان آپﷺ کی آمد کی خوشی میں نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے استقبال کے لیے نکل پڑے، پھر آپﷺ سے مل کر تحیہ نبوت پیش کیا اور گرد و پیش پروانوں کی طرح جمع ہو گئے، اس وقت آپﷺ پر سکینت چھائی ہوئی تھی، اور یہ وحی نازل ہو رہی تھی:
ترجمہ: ”اللہ آپ کا مولیٰ ہے اور جبرئیل علیہ السلام اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد فرشتے آپ کے مددگار ہیں۔

حضرت عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ لوگوں سے ملنے کے بعد آپ ان کے ساتھ داہنی جانب مڑے اور بنی عمرو بن عوف میں تشریف لائے۔ یہ دو شنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا، ابو بکر رضی اللہ عنہ آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور رسول اللہﷺ چپ چاپ بیٹھے تھے۔ انصار کے جو لوگ آتے، جنہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا نہ تھا، وہ سیدھے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سلام کرتے، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ پر دھوپ آ گئی اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے چادر تان کر آپﷺ پر سایہ کیا، تب لوگوں نے پہچانا کہ یہ رسول اللہﷺ ہیں۔

آپﷺ کے استقبال اور دیدار کے لیے سارا مدینہ امڈ پڑا تھا، یہ ایک تاریخی دن تھا جس کی نظیر سرزمین مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی، آج یہود نے بھی حبقوق نبی کی اس بشارت کا مطلب دیکھ لیا تھا کہ اللہ جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا۔
رسول اللہﷺ نے قبا میں کلثوم بن ہدم اور کہا جاتا ہے کہ سعد بن خیثمہ کے مکان میں قیام فرمایا۔
پہلا قول زیادہ قوی ہے۔
ادھر حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مکہ میں تین روز ٹھہر کر اور لوگوں کی جو امانتیں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھیں انہیں ادا کرکے پیدل ہی مدینہ کا رخ کیا اور قبا میں رسول اللہﷺ سے آملے اور کلثوم بن ہدم کے یہاں قیام فرمایا۔
رسول اللہﷺ نے قبا میں کل چار دن (دو شنبہ منگل، بدھ، جمعرات) یا دس سے زیادہ دن یا پہنچ اور روانمگی کے علاوہ 24 دن قیام فرمایا اور اسی دوران مسجد قبأ کی بنیاد رکھی اور اس میں نماز بھی پڑھی۔
یہ آپﷺ کی نبوت کے بعد پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی۔ پانچویں دن (یا بارہویں دن یا چھبیسویں دن) جمعہ کو آپﷺ حکم الٰہی کے مطابق سوار ہوئے، ابو بکر رضی اللہ عنہ آپﷺ کے ردیف تھے۔ آپﷺ نے بنو النجار کو، جو آپﷺ کے ماموں کا قبیلہ تھا، اطلاع بھیج دی تھی چنانچہ وہ تلواریں حمائل کئے حاضر تھے، آپﷺ نے (ان کی معیت میں) مدینہ کا رخ کیا۔
بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہنچے تو جمعہ کا وقت آ گیا۔ آپﷺ نے بطن وادی میں اس مقام پر جمعہ پڑھا جہاں اب مسجد ہے، کل ایک سو آدمی تھے۔
مدینہ میں داخلہ
جمعہ کے بعد نبیﷺ مدینہ تشریف لے گئے اور اسی دن سے اس شہر کا نام یثرب کے بجائے مدینة الرسول۔ شہر رسولﷺ پڑ گیا، جسے مختصراً مدینہ کہا جاتا ہے۔ یہ نہایت تابناک تاریخی دن تھا۔
گلی کوچے تقدیس و تحمید کے کلمات سے گونج رہے تھے اور انصار کی بچیاں خوشی و مسرت سے ان اشعار کے نغمے بکھیر رہی تھیں۔ (اشعار کا یہ ترجمہ علامہ منصور پوری نے کیا ہے علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ اشعارتبوک سے نبیﷺ کی واپسی پر پڑھے گئے تھے اور جو یہ کہتا ہے کہ مدینہ میں آپﷺ کے داخلے کے موقع پر پڑھے گئے تھے اسے وہم ہوا ہے لیکن علامہ ابن قیم نے اس کے وہم ہونے کی کوئی تشفی بخش دلیل نہیں دی ہے، ان کے بر خلاف علامہ منصور پوری نے اس بات کو ترجیح دی ہے، یہ اشعار مدینہ میں داخلے کے وقت پڑھے گئے اور ان کے پاس اس کے ناقابل تردید دلائل بھی ہیں)
ترجمہ:
”ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب
چودھویں کا چاند ہے ہم پر چڑھا
کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے
شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا
ہے اطاعت فرض تیرے حکم کی
بھیجنے والا ہے تیرا کبریا“
انصار اگرچہ بڑے دولت مند نہ تھے لیکن ہر ایک کی یہی آرزو تھی کہ رسول اللہﷺ اس کے یہاں قیام فرمائیں چنانچہ آپﷺ انصار کے جس مکان یا محلے سے گزرتے وہاں کے لوگ آپﷺ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ لیتے اور عرض کرتے کہ تعداد و سامان اور ہتھیار و حفاظت فرش راہ ہیں، تشریف لائیے مگر آپﷺ فرماتے کہ اونٹنی کی راہ چھوڑ دو، یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے چنانچہ اونٹنی مسلسل چلتی رہی اور اس مقام پر پہنچ کر بیٹھی جہاں آج مسجد نبوی ہے لیکن آپﷺ نیچے نہیں اترے یہاں تک کہ وہ اٹھ کر تھوڑی دور گئی، پھر مڑ کر دیکھنے کے بعد پلٹ آئی اور اپنی پہلی جگہ بیٹھ گئی، اس کے بعد آپﷺ نیچے تشریف لائے۔
یہ آپﷺ کے ننہال والوں یعنی بنو نجار کا محلہ تھا اور یہ اونٹنی کے لیے محض توفیق الٰہی تھی کیونکہ آپﷺ ننہال میں قیام فرما کر ان کی عزت افزائی کرنا چاہتے تھے۔ اب بنو نجار کے لوگوں نے اپنے اپنے گھر لے جانے کے لیے رسول اللہﷺ سے عرض معروض شروع کی لیکن ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے لپک کر کجاوہ اٹھا لیا اور اپنے گھر لے کر چلے گئے، اس پر رسول اللہﷺ فرمانے لگے، آدمی اپنے کجاوے کے ساتھ ہے، ادھر حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے آکر اونٹنی کی نکیل پکڑ لی چنانچہ یہ اونٹنی انہیں کے پاس رہی۔

صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا ہمارے کس آدمی کا گھر زیادہ قریب ہے؟ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا میرا اے اللہ کے رسول، یہ رہا میرا مکان اور یہ رہا میرا دروازہ، آپﷺ نے فرمایا جاؤ اور ہمارے لیے قیلولہ کی جگہ تیار کر دو۔ انہوں نے عرض کی آپ دونوں حضرات تشریف لے چلیں، اللہ برکت دے۔
چند دن بعد آپﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور آپﷺ کی دونوں صاحبزادیوں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور ام ایمن رضی اللہ عنہا بھی آ گئیں۔
ان سب کو حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ آل ابی بکر کے ساتھ، جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، لے کر آئے تھے البتہ نبیﷺ کی ایک صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا، حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کے پاس باقی رہ گئیں، انہوں نے آنے نہیں دیا اور وہ جنگ بدر کے بعد تشریف لا سکیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بخار آ گیا۔
میں نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ ابا جان آپ کا کیا حال ہے؟ اے بلال آپ کا کیا حال ہے؟ وہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بخار آتا تو یہ شعر پڑھتے!
ترجمہ: ”ہر آدمی سے اس کے اہل کے اندر صبح بخیر کہا جاتا ہے حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔“
اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حالت کچھ سنبھلی تو وہ اپنی کربناک آواز بلند کرتے اور کہتے:
”کاش میں جانتا کہ کوئی رات وادی مکہ میں گزار سکوں گا اور میرے گرد اذخر اور جلیل (گھاس)ہوں گی۔
اور کیا کسی دن مجنہ کے چشمے پر وارد ہو سکوں گا اور مجھے شامہ اور طفیل (پہاڑ) دکھلائی پڑیں گے۔“
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی خبر دی تو آپﷺ نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے نزدیک مدینہ کو اسی طرح محبوب کر دے جیسے مکہ محبوب تھا یا اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی فضا صحت بخش بنا دے اور اس کے صاع اور مُدُ (غلے کے پیمانوں) میں برکت دے اور اس کا بخار منتقل کرکے جحفہ پہنچا دے۔ اللہ نے آپﷺ کی دعا سن لی اور حالات بدل گئے۔
یہاں تک حیات طیبہ کی ایک قسم اور اسلامی دعوت کا ایک دور یعنی مکی دور پورا ہو جاتا ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu