Open Menu

Ar-raheeq Al-makhtoom ...... Jahili Moashray Ki Chand JhalkiaN - Article No. 1209

Ar-raheeq Al-makhtoom ...... Jahili Moashray Ki Chand JhalkiaN

الرحیق المختوم ----- جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں - تحریر نمبر 1209

زمانہ جاہلیت میں باپ کے طلاق دینے یا وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کر لیتا تھا

maulana safiur rahman mubarakpuri مولانا صفی الرحمان مبارک پوری پیر 25 ستمبر 2017

جزیرۃ العرب کے سیاسی اور مذہبی حالات بیان کر لینے کے بعد اب وہاں کے اجتماعی اقتصادی اور اخلاقی حالات کا خاکہ مختصراً پیش کیا جارہا ہے۔
اجتماعی حالات:
عرب آبادی طبقات پر مشتمل تھی اور ہر طبقے کے حالات ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف تھے۔ چنانچہ طبقَہ اشراف میں مرد عورت کا تعلق خاصا ترقی یافتہ تھا۔ عورت کو بہت کچھ خود مختاری حاصل تھی۔

اس کی بات مانی جاتی تھی۔ اور اس کا اتنا احترام اور تحفظ کیا جاتا تھا کہ اس راہ میں تلواریں نکل پڑتی تھیں اور خونریزیاں ہو جاتی تھیں۔ آدمی جب اپنے کرم و شجاعت پر جسے عرب میں بڑا بلند مقام حاصل تھا اپنی تعریف کرنا چاہتا تو عموماً عورت ہی کو مخاطب کرتا۔ بسا اوقات عورت چاہتی تو قبائل کو صلح کے لیے اکٹھا کر دیتی اور چاہتی تو ان کے درمیان جنگ اور خونریزی کے شعلے بھڑکا دیتی، لیکن ان سب کے باوجود بلا نزاع مرد ہی کو خاندان کا سربراہ مانا جاتا تھا اور اس کی بات فیصلہ کن ہوا کرتی تھی۔

(جاری ہے)

اس طبقے میں مرد اور عورت کا تعلق عقد نکاح کے ذریعے ہوتا تھا، اور یہ نکاح عورت کے اولیاء کی زیرنگرانی انجام پاتا تھا۔ عورت کا یہ حق نہ تھا کہ ان کی ولایت کے بغیر اپنے طور پر نکاح کر لے۔
ایک طرف طبقہ اشراف کا یہ حال تھا تو دوسری طرف دوسرے طبقوں میں مرد و عورت کے اختلاط کی اور بھی کئی صورتیں تھیں جنہیں بدکاری و بے حیائی اور فحش کاری و زنا کاری کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں۔ ایک تو وہی صورت تھی جو آج بھی لوگوں میں رائج ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس کی زیر ولایت لڑکی کے لیے نکاح کا پیغام دیتا۔ پھر منظوری کے بعد مہر دے کر اس سے نکاح کر لیتا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ عورت جب حیض سے پاک ہوتی تو اس کا شوہر کہتا کہ فلاں شخص کے پاس پیغام بھیج کر اس سے اس کی شرمگاہ حاصل کرو (یعنی زنا کراﺅ) اور شوہر خود اس سے الگ تھلگ رہتا اور اس کے قریب نہ جاتا یہاں تک کہ واضح ہو جاتا کہ جس آدمی سے شرمگاہ حاصل کی تھی (یعنی زنا کرایا تھا) اس سے حمل ٹھہر گیا ہے۔
جب حمل واضح ہو جاتا تو اس کے بعد اگر شوہر چاہتا تو اس عورت کے پاس جاتا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ لڑکا شریف اور باکمال پیدا ہو۔ اس نکاح کو نکاح اِستبضَاع کہا جاتا تھا (اور اسی کو ہندوستان میں نیوگ کہتے ہیں) نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ دس آدمیوں سے کم کی ایک جماعت اکٹھا ہوتی۔ سب کے سب ایک ہی عورت کے پاس جاتے اور بدکاری کرتے۔ جب وہ عورت حاملہ ہو جاتی اور بچہ پیدا ہوتا تو پیدائش کے چند رات بعد وہ عورت سب کو بلا بھیجتی اور سب کو آنا پڑتا، مجال نہ تھی کہ کوئی نہ آئے۔
اس کے بعد وہ عورت کہتی کہ آپ لوگوں کا جو معاملہ تھا وہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں اور اب میرے بطن سے بچہ پیدا ہوا ہے اور اے فلاں وہ تمہارا بیٹا ہے۔ وہ عورت ان میں سے جس کا نام چاہتی لے لیتی اور وہ اُس کا لڑکا مان لیا جاتا۔
چوتھا نکاح یہ تھا کہ بہت سے لوگ اکٹھے ہوتے اور کسی عورت کے پاس جاتے۔ وہ اپنے پاس کسی آنے والے سے انکار نہ کرتی۔ یہ رنڈیاں ہوتی تھیں جو اپنے دروازوں پر جھنڈیاں گاڑے رکھتی تھیں تاکہ یہ نشانی کا کام دے اور جو ان کے پاس جانا چاہے بے دھڑک چلا جائے۔
جب ایسی عورت حاملہ ہوتی اور بچہ پیدا ہوتا تو سب کے سب اس کے پاس جمع ہوتے اور قیافہ شناس کو بلاتے۔ قیافہ شناس اپنی رائے کے مطابق اس لڑکے کو کسی بھی شخص کے ساتھ ملحق کر دیتا۔ پھر یہ اسی سے مربوط ہو جاتا اور اسی کا لڑکا کہلاتا۔ وہ اس سے انکار نہ کر سکتا تھا ۔۔۔۔ جب اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا تو جاہلیت کے سارے نکاح منہدم کر دیئے۔
صرف اسلامی نکاح باقی رہا جو آج رائج ہے۔
عورت میں مرد و عورت کے ارتباط کی بعض صورتیں ایسی بھی تھیں جو تلوار کی دھار اور نیزے کی نوک پر وجود میں آتی تھیں۔ یعنی قبائلی جنگوں میں غالب آنے والا قبیلہ مغلوب قبیلے کی عورتوں کو قید کرکے اپنے حرم میں داخل کر لیتا تھا۔ لیکن ایسی عورتوں سے پیدا ہونے والی اولاد زِندگی بھر عار محسوس کرتی تھی۔

زمانہ جاہلیت میں کسی تحدید کے بغیر متعدد بیویاں رکھنا بھی ایک معروف بات تھی۔ لوگ ایسی دو عورتیں بھی بیک وقت نکاح میں رکھ لیتے تھے جو آپس میں سگی بہنیں ہوتی تھیں۔ باپ کے طلاق دینے یا وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کر لیتا تھا۔ طلاق کا اختیار مرد کو حاصل تھا اور اس کی کوئی حد معین نہ تھی۔
زنا کاری تمام طبقات میں عروج پر تھی۔
کوئی طبقہ یا انسانوں کی کوئی قسم اس سے مستثنیٰ نہ تھی۔ البتہ کچھ مرد اور کچھ عورتیں ایسی ضرور تھیں جنہیں اپنی بڑائی کا احساس اس برائی کے کیچڑ میں لت پت ہونے سے باز رکھتا تھا۔ پھر آزاد عورتوں کا حال لونڈیوں کے مقابل نسبتاً اچھا تھا۔ اصل مصیبت لونڈیاں ہی تھیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اہل جاہلیت کی غالب اکثریت اس برائی کی طرف منسوب ہونے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتی تھی چنانچہ سنن ابی داﺅد وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: یارسول اللہ ﷺ فلاں شخص میرا بیٹا ہے۔
میں نے جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام میں ایسے دعوے کی کوئی گنجائش نہیں، جاہلیت کی بات گئی، اب تو لڑکا اسی کا ہوگا جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زنا کار کے لیے پتھر ہے۔ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عبد بن زَمعَہ کے درمیان زمعہ کی لونڈی کے بیٹے ۔۔۔ عبدالرحمٰن بن زمعہ ۔۔۔ کے بارے میں جو جھگڑا پیش آیا تھا وہ بھی معلوم و معروف ہے۔

جاہلیت میں باپ بیٹے کا تعلق بھی مختلف نوعیت کا تھا۔ کچھ تو ایسے تھے جو کہتے تھے۔
ترجمہ: ”ہماری اولاد ہمارے کلیجے ہیں جو روئے زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔“
لیکن دوسری طرف کچھ ایسے بھی تھے جو لڑکیوں کو رسوائی اور خرچ کے خوف سے زندہ دفن کر دیتے تھے اور بچوں کو فقر و فاقہ کے ڈر سے مار ڈالتے تھے۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سنگ دلی بڑے پیمانے پر رائج تھی کیونکہ عرب اپنے دشمن سے اپنی حفاظت کے لیے دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ اولاد کے محتاج تھے اور اس کا احساس بھی رکھتے تھے۔

جہاں تک سگے بھائیوں، چچیرے بھائیوں اور کنبے قبیلے کے لوگوں کے باہمی تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ خاصے پختہ اور مضبوط تھے کیونکہ عرب کے لوگ قبائلی عصبیت ہی کے سہارے جیتے اور اسی کے لیے مرتے تھے۔ قبیلے کے اندر باہمی تعاون اور اجتماعیت کی روح پوری طرح کار فرما ہوتی تھی۔ جسے عصبیت کا جذبہ مزید دو آتشہ رکھتا تھا۔ درحقیقت قومی عصبیت اور قرابت کا تعلق ہی ان کے اجتماعی نظام کی بنیاد تھا۔
وہ لوگ اس مثل پر اس کے لفظی معنی کے مطابق عمل پیرا تھے کہ ترجمہ: ”اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اس مثل کے معنی میں ابھی وہ اصلاح نہیں ہوئی تھی جو بعد میں اسلام کے ذریعے کی گئی یعنی ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے باز رکھا جائے۔ البتہ شرف و سرداری میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جذبہ بہت سی دفعہ ایک ہی شخص سے وجود میں آنے والے قبائل کے درمیان جنگ کا سبب بن جایا کرتا تھا جیسا کہ اَدس و خزرَج، عَبس و ذبیان اور بَکرو تَغلب وغیرہ کے واقعات میں دیکھا جاسکتا ہے۔

جہاں تک مختلف قبائل کے ایک دوسرے سے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ پوری طرح شکستہ و ریخہ تھے۔ قبائل کی ساری قوت ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں فنا ہورہی تھی، البتہ دین اور خرافات کے آمیزے سے تیارشدہ بعض رسوم و عادات کی بدولت بسا اوقات جنگ کی حدّت و شِدّت میں کمی آ جاتی تھی اور بعض حالات میں مُوالاة، حلف اور تابعداری کے اصولوں پر مختلف قبائل یکجا ہو جاتے تھے۔
علاوہ ازیں حرام مہینے ان کی زندگی اور حصول کے لیے سراپا رحمت و مدد تھے۔
خلاصہ یہ کہ اجتماعی حالت ضُعف و بے بصیرتی کی پستی میں گری ہوئی تھی، جہاں اپنی طنابیں تانے ہوئے تھا اور خرافات کا دور دورہ تھا۔ یہ لوگ جانور جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ عورت بیچی اور خریدی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے مٹی اور پتھر جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ قوم کے باہمی تعلقات کمزور بلکہ ٹوٹے ہوئے تھے اور حکومتوں کے سارے عزائم اپنی رعایا سے خزانے بھرنے یا مخالفین پر فوج کشی کرنے تک محدود تھے۔

اقتصادی حالت:
اقتصادی حالت اجتماعی حالت کے تابع تھی، اس کا اندازہ عرب کے ذرائع معاش پر نظر ڈالنے سے ہو سکتا ہے کہ تجارت ہی ان کے نزدیک ضروریات زندگی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تھی۔ اور معلوم ہے کہ تجارتی آمد و رفت امن و سلامتی کی فضا کے بغیر آسان نہیں اور جزیرۃ العرب کا حال یہ تھا کہ سوائے حرمت والے مہینوں کے امن و سلامتی کا کہیں وجود نہ تھا۔
یہی وجہ ہے کہ صرف حرام مہینوں ہی میں عرب کے مشہور بازار عُکاظ، ذی المجَاز اور مَجِنّہ وغیرہ لگتے تھے۔
جہاں تک صنعتوں کا معاملہ ہے تو عرب اس میدان میں ساری دنیا سے پیچھے تھے۔ کپڑے کی بنائی اور چمڑے کی دِباغَت وغیرہ کی شکل میں جو چند صنعتیں پائی جاتی تھیں وہ زیادہ تر یمن، حیرہ اور شام کے متصل علاقوں میں تھیں، البتہ اندرون عرب کھیتی باڑی اور گلہ بانی کا کسی قدر رواج تھا۔
ساری عرب عورتیں سوت کاتتی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہ سارا مال و متاع ہمیشہ لڑائیوں کی زد میں رہتا تھا، فقر اور بھوک کی وبا عام تھی اور لوگ ضروری کپڑوں اور لباس سے بھی بڑی حد تک محروم رہتے تھے۔
اخلاق:
یہ تو اپنی جگہ مُسلّم ہے ہی کہ اہل جاہلیت میں خَسیس و رَذیل عادتیں اور وجدان و شعور اور عقل سلیم کے خلاف باتیں پائی جاتی تھیں لیکن ان میں ایسے پسندیدہ اخلاق فاضلہ بھی تھے جنہیں دیکھ کر انسان دنگ اور ششدر رہ جاتا ہے، مثلاً
۱۔
کرم و سخاوت۔۔۔۔ یہ اہل جاہلیت کا ایسا وصف تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر اس طرح فخر کرتے تھے کہ عرب کے آدھے اشعدار اسی کی نذر ہو گئے ہیں۔ اس وصف کی بنیاد پر کسی نے خود اپنی تعریف کی ہے تو کسی اور کی۔ حالت یہ تھی کہ سخت جاڑے اور بھوک کے زمانے میں کسی کے گھر کوئی مہمان آ جاتا اور اس کے پاس اپنی اس ایک اونٹنی کے سوا کچھ نہ ہوتا جو اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی کا واحد ذریعہ ہوتی تو بھی۔
۔۔۔۔ ایسی سنگین حالت کے باوجود ۔۔۔۔ اس پر سخاوت کا جوش غالب آ جاتا اور وہ اٹھ کر اپنے مہمان کے لیے اپنی اونٹنی ذبح کر دیتا۔ ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑی بڑی دیت اور مالی ذمہ داریاں اٹھا لیتے اور اس طرح انسانوں کو بربادی اور خونریزی سے بچا کر دوسرے رئیسوں اور سرداروں کے مقابل فخر کرتے تھے۔
اسی کرم کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے۔
اس لیے نہیں کہ یہ بذات خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ اس لیے کہ یہ کرم و سخاوت کو آسان کر دیتی تھی کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ اس لیے یہ لوگ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے۔ جاہلی اشعار کے دَوَاوِین پر نظر ڈالئے تو یہ مدح و فخر کا ایک اہم باب نظر آئے گا۔ عنترہ بن شداد عبسی اپنے مُعلقہ میں کہتا ہے: ترجمہ:
”میں نے دوپہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام بلوریں سے، جو بائیں جانب رکھی ہوئی تابناک اور منہ بند خُم کے ساتھ تھا، نشان لگی ہوئی صاف شفاف شراب پی اور جب میں پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا ہوں۔
لیکن میری آبرو بھرپور رہتی ہے، اس پر کوئی چوٹ نہیں آتی اور جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت میں کوتاہی نہیں کرتا اور میرا اخلاق و کرم جیسا کچھ ہے تمہیں معلوم ہے۔“
ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جوا کھیلتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی ایک راہ ہے کیونکہ انہیں جو نفع حاصل ہوتا، یا نفع حاصل کرنے والوں کے حصے سے جو کچھ فاضل بچ رہتا اسے مسکینوں کو دے دیتے تھے۔
اسی لیے قران پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا کہ، ترجمہ: ”ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔“
۲۔ وفائے عہد ۔۔۔ یہ بھی دور جاہلیت کے اخلاق فاضلہ میں سے ہے۔ عہد کو ان کے نزدیک دین کی حیثیت حاصل تھی جس سے وہ بہرحال چمٹے رہتے تھے۔ اور اس راہ میں اپنی اولاد کا خون اور اپنے گھر بار کی تباہی بھی ہیچ سمجھتے تھے۔
اسے سمجھنے کے لیے ہانی بن مسعود شَیبانی، سموآل بن عادیا اور حاجب بن زرارہ کے واقعات کافی ہیں۔
۳۔ خوداری و عزت نفس ۔۔۔۔ اس پر قائم رہنا اور ظلم و جبر برداشت نہ کرنا بھی جاہلیت کے معروف اخلاق میں سے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی شجاعت و غیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ وہ فوراً بھڑک اٹھتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر، جس سے ذلت و اہانت کی بو آتی، شمشیر و سنان اٹھا لیتے اور نہایت خونزیز جنگ چھیڑ دیتے۔
انہیں اس راہ میں اپنی جان کی قطعاً پروا نہ رہتی۔
۴۔عزائم کی تکمیل ۔۔۔۔ اہل جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب وہ کسی کام کو مجدد افتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تُل جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیں روک نہیں سکتی تھی۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کام کو انجام دے ڈالتے تھے۔
۵۔ حلم و بُردباری اور سنجیدگی ۔۔۔۔۔ یہ بھی اہل جاہلیت کے نزدیک قابلِ ستائش خوبی تھی، مگر یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت اور جنگ کے لیے ہمہ وقت آمادگی کی عادت کے سبب نادر الوجود تھی۔

۶۔ بَدوی سادگی ۔۔۔۔ یعنی تمدّن کی آلائشوں اور داﺅ پیچ سے ناواقف اور دوری۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں سچائی اور امانت پائی جاتی تھی۔ وہ فریب کاری و بدعہدی سے دور اور مُتَنِفّر تھے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جزیرةُ العرب کو ساری دنیا سے جو جغرافیائی نسبت حاصل تھی اس کے علاوہ یہی وہ قیمتی اخلاق تھے جن کی وجہ سے اہل عرب کو بنی نوع انسان کی قیادت اور رسالتِ عامہّ کا بوجھ اُٹھانے کے لیے منتخب کیا گیا۔
کیونکہ یہ اخلاق اگرچہ بعض اوقات شَر و فَساد کا سبب بن جاتے تھے اور ان کی وجہ سے المناک حادثات پیش آ جاتے تھے لیکن یہ فی نفسہ بڑے قیمتی اخلاق تھے۔ جو تھوڑی سی اصلاح کے بعد انسانی معاشرے کے لیے نہایت مفید بن سکتے تھے، اور یہی کام اسلام نے انجام دیا۔
غالباً ان اخلاق میں بھی ایفائے عہد کے بعد عزتِ نفس اور پختگی عزم سب سے گراں قیمت اور نفع بخش جوہر تھا۔ کیونکہ اس قوت قاہرہ اور عزمِ مُصَمَّم کے بغیر شَرّ و فساد کا خاتمہ اور نظام عدل کا قیام ممکن نہیں۔
اہل جاہلیت کے کچھ اور بھی اخلاق فاضلہ تھے لیکن یہاں سب کا احاطہ کرنا مقصود نہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu