Open Menu

Ar-raheeq Al-makhtoom ...... Khuli Tableegh - Article No. 1217

Ar-raheeq Al-makhtoom ...... Khuli Tableegh

الرحیق المختوم، کھلی تبلیغ - تحریر نمبر 1217

ابو لہب نے کہا: اس کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم لوگ خود ہی پکڑ لو۔ اس پر ابو طالب نے کہا: خدا کی قسم، جب تک جان میں جان ہے ہم ان کی حفاظت کرتے رہیں گے

maulana safiur rahman mubarakpuri مولانا صفی الرحمان مبارک پوری منگل 24 اکتوبر 2017

اظہار دعوت کا پہلا حکم:
اس بارے میں سب سے پہلے اللہ تعالی کا یہ قول نازل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپﷺ اپنے نزدیک ترین قرابت داروں کو (عذاب الہٰی سے) ڈرائیے، یہ سورہ شعراء کی آیت ہے اور اس سورہ میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا آغاز ہوا۔

پھر آخر میں انہوں نے بنی اسرائیل سمیت ہجرت کر کے فرعون اور قوم فرعون سے نجات پائی اور فرعون و آلِ فرعون کو غرق کیا گیا۔ بلفظ دیگر یہ تذکرہ ان تمام مراحل پر مشتمل ہے جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور قوم فرعون کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے گزرے تھے۔
میرا خیال ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کواپنی قوم کے اندر کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس موقعے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کی یہ تفصیل اس لیے بیان کر دی گئی تاکہ کھلم کھلا دعوت دینے کے بعد جس طرح کی تکذیب اور ظلم و زیادتی سے سابقہ پیش آنے والا تھا اس کا ایک نمونہ آپﷺ اور صحابہ کرام کے سامنے موجود رہے۔

(جاری ہے)


دوسری طرف اس سورہ میں پیغمبروں کو جھٹلانے والی اقوام مثلاً فرعون اور قوم فرعون کے علاوہ قوم نوح، عاد، ثمود، قوم ابراہیم علیہ السلام، قوم لوط اور اصحاب الایکہ کے انجام کا بھی ذکر ہے۔ اس کا مقصدغالباً یہ ہے کہ جو لوگ آپ کو جھٹلائیں انہیں معلوم ہو جائے کہ تکذیب پر اصرار کی صورت میں ان کا انجام کیا ہونے والا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کس قسم کے مواخذے سے دوچار ہوں گے۔
نیز اہل ایمان کو معلوم ہو جائے کہ اچھا انجام انہیں کا ہوگا، جھٹلانے والوں کا نہیں۔
قرابت داروں میں دعوت تبلیغ:
بہرحال اس آیت کے نزول کے بعد نبی ﷺ نے پہلا کام کیا کہ بنی ہاشم کو جمع کیا، ان کے ساتھ بنی مطلب بن عبد مناف کی بھی ایک جماعت تھی۔ کل پینتالیس آدمی تھے۔ لیکن ابو لہب نے بات لپک لی اور بولا: دیکھو یہ تمہارے چچا اور چچیرے بھائی ہیں۔
بات کرو لیکن نادانی چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب سے مقابلے کی تاب نہیں رکھتا اور میں سب سے زیادہ حق دار ہوں کہ تمہیں پکڑ لوں۔ پس تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے۔ اور اگر تم اپنی بات پر قائم رہے تو یہ بہت آسان ہوگا کہ قریش کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑیں اور بقیہ عرب بھی ان کی امداد کریں۔ پھر میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص اپنے باپ کے خانوادے کے لیے تم سے بڑھ کر شر (اور تباہی) کا باعث ہوگا۔
اس پر نبی ﷺ نے خاموشی اختیار کرلی اور اس مجلس میں کوئی گفتگو نہ کی۔
اس کے بعد آپﷺ نے انہیں دوبارہ جمع کیا اور ارشاد فرمایا: ساری حمد اللہ کے لیے ہے، میں اس کی حمد کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں۔ اس پر ایمان رکھتا ہوں، اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ وہ تنہا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔
پھر آپﷺ نے فرمایا: رہنما اپنے گھر کے لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں تمہاری طرف خصوصاً اور لوگوں کی طرف عموماً اللہ کا رسول (فرستادہ) ہوں۔ بخدا! تم لوگ اسی طرح موت سے دوچار ہوگے جیسے سو جاتے ہو اور اسی طرح اٹھائے جاﺅ گے جیسے سو کر جاگتے ہو۔ پھر جو کچھ تم کرتے ہوں اس کا تم سے حساب لیا جائے گا۔
اس کے بعد یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہے یا ہمیشہ کے لیے جہنم۔
اس پر ابو طالب نے کہا (نہ پوچھو) ہمیں تمہاری معاونت کس قدر پسند ہے! تمہاری نصیحت کس قدر قابل قبول ہے اور ہم تمہاری بات کس قدر سچی جانتے مانتے ہیں اور یہ تمہارے والد کا خانوادہ جمع ہے۔ اور میں بھی ان کا ایک فرد ہوں، فرق اتنا ہے کہ میں تمہاری پسند کی تکمیل کے لیے ان سب سے پیش پیش ہوں۔
لہٰذا تمہیں جس بات کا حکم ہوا ہے اسے انجام دو۔ بخدا میں تمہاری مسلسل حفاظت و اعانت کرتا رہوں گا۔ البتہ میری طبیعت عبدالمطلب کا دین چھوڑنے پر راضی نہیں۔
ابو لہب نے کہا: خدا کی قسم یہ برائی ہے۔ اس کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم لوگ خود ہی پکڑ لو۔ اس پر ابو طالب نے کہا خدا کی قسم، جب تک جان میں جان ہے ہم ان کی حفاظت کرتے رہیں گے۔
کوہ صفا پر:
جب نبیﷺ نے اچھی طرح اطمینان کرلیا کہ اللہ کے دین کی تبلیغ کے دوران ابو طالب ان کی حمایت کریں گے تو ایک روز آپﷺ نے کوہ صفا پر چڑھ کر یہ آواز لگائی یا صَبَاحَاہُ (اہل عرب کا دستور تھا کہ دشمن کے حملے سے آگاہ کرنے کیلئے کسی بلند مقام پر چڑھ کر انہیں الفاظ سے پکارتے تھے) یا صَبَاحَاہُ (ہائے صبح)! یہ پکار سن کر قریش قبائل آپﷺ کے پاس جمع ہوگئے اور آپﷺ نے انہیں خدا کی توحید، اپنی رسالت اور یوم آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔
اس واقعے کا ایک ٹکڑا صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس طرح مروی ہے کہ:
جب ۔۔۔۔۔۔ وانذِر عشِیرَ تک الاقربین۔۔۔۔۔ نازل ہوئی تو نبی ﷺ نے کوہ صفا پر چڑھ کر بطون قریش کو آواز لگانی شروع کی۔ اے بنی فہر! اے بنی عدی! یہاں تک کہ سب کے سب اکٹھا ہوگئے۔ حتی کہ اگر کوئی آدمی خود نہ جا سکتا تھا تو اس نے اپنا قاصد بھیج دیا کہ دیکھے معاملہ کیا ہے؟ غرض قریش آگئے۔
ابو لہب بھی آگیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ یہ بتاﺅ! اگر میں یہ خبر دوں کہ ادھر وادی میں شہسوار کی ایک جماعت ہے جو تم پر چھاپہ مارنا چاہتی ہے تو کیا تم مجھے سچا مانو گے؟ لوگوں نے کہا‘ ہاں! ہم نے آپ پر سچ ہی کا تجربہ کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا اچھا، تو میں تمہیں ایک سخت عذاب سے پہلے خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ اس پر ابو لہب نے کہا تو سارے دن غارت ہو، تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا۔
اس پر سورہ تبت ہدا ابی لہب۔۔۔۔۔۔نازل ہوئی، ابولہب کے دونوں ہاتھ غارت ہوں اور وہ خود غارت ہو۔
اس واقعے کا ایک اور ٹکڑا امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آیت ۔۔۔۔ وانذِر عشیرتک الاقربین۔۔۔ نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے پکار لگائی۔ یہ پکار عام بھی تھی اور خاص بھی۔ آپﷺ نے کہا اے جماعت قریش! اپنے آپ کو جہنم سے بچاﺅ۔
اے بنی کعب! اپنے آپ کو جہنم سے بچاﺅ۔ اے محمد کی بیٹی فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم سے بچا کیونکہ میں تم لوگوں کو اللہ (کی گرفت) سے (بچانے کا) کچھ اختیار نہیں رکھتا البتہ تم لوگوں سے نسب و قرابت کے تعلقات ہیں۔ جنہیں میں باقی اور ترو تازہ رکھنے کی کوشش کروں گا۔
یہ بانگ درا غایت تبلیغ تھی، رسول اللہﷺ نے اپنے قریب ترین لوگوں پر واضح کر دیا تھا کہ اب اس رسالت کی تصدیق ہی پر تعلقات موقوف ہیں اور جس نسلی اور قبائلی عصبیت پر عرب قائم ہیں وہ اس خدائی اِنذار کی حرارت میں پگھل کر ختم ہو چکی ہے۔

حق کا واشگاف اعلان اور مشرکین کا ردعمل:
اس آواز کی گونج ابھی مکے کے اطراف میں سنائی ہی دے رہی تھی کہ اللہ تعالہ کا ایک اور حکم نازل ہوا۔
ترجمہ:”آپ کو جو حکم ملا ہے اسے کھول کر بیان کر دیجئے اور مشرکین سے رُخ پھیر لیجئے“
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے شرک کے خرافات و اباطیل کا پردہ چاک کرنا اور بتوں کی حقیقت اور قدر و قیمت کو واشگاف کرنا شروع کر دیا۔
آپ مثالیں دے دے کر سمجھاتے کہ یہ کس قدر عاجز و ناکارہ ہیں اور دلائل سے واضح فرماتے کہ جو شخص انہیں پوجتا ہے اور ان کو اپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ بناتا ہے وہ کس قدر کھلی ہوئی گمراہی میں ہے۔
مکہ، ایک ایسی آواز سن کر جس میں مشرکین اور بت پرستوں کو گمراہ کہا گیا تھا، احساس غضب سے پھٹ پڑا۔ اور شدید غم و غصہ سے پیچ و تاب کھانے لگا۔
گویا بجلی کا کڑکا تھا جس نے پر سکون فضا کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اس لیے قریش اس اچانک پھٹ پڑنے والے انقلاب کی جڑ کاٹنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ اس پشتینی رسم و رواج کا صفایا ہوا چاہتا تھا۔
قریش اُٹھ پڑے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ غیر اللہ کی الوہیت کے انکار اور رسالت و آخرت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اس رسالت کے حوالے کر دیا جائے اور اس کی بے چون و چرا اطاعت کی جائے، یعنی اس طرح کہ دوسرے تو درکنار خود اپنی جان اور اپنے مال تک کے بارے میں کوئی اختیار نہ رہے اور اس کا معنی یہ تھے کہ مکہ والوں کو دینی رنگ میں اہل عرب پر جو بڑائی اور سرداری حاصل تھی اس کا صفایا ہو جائے گا اور اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے مقابل میں انہیں اپنی مرضی پر عمل پیرا ہونے کا اختیار نہ رہے گا۔
یعنی نچکلے طبقے پر انہوں نے جو مظالم روا رکھے تھے، اور صبح و شام جن برائیوں میں لت پت رہتے تھے ان سے دستکش ہوتے ہی بنے گی۔ قریش اس مطلب کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے اس لیے ان کی طبیعت اس رسواکن پوزیشن کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھی لیکن کسی شرف اور خیر کے پیش نظر نہیں۔ بل یرید الانسان لیفجر امامہ
ترجمہ: ”بلکہ اس لیے کہ انسان چاہتا ہے کہ آئندہ بھی بُرائی کرتا رہے۔

قریش یہ سب کچھ سمجھ رہے تھے لیکن مشکل یہ آن پڑھی تھی کہ ان کے سامنے ایک ایسا شخص تھا جو صادق و امین تھا، انسانی اقدار اور مکارم اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھا اور ایک طویل عرصے سے انہوں نے اپنے آباﺅاجداد کی تاریخ میں اس کی نظیر نہ دیکھی تھی اور نہ سُنی۔ آخر اس کے بالمقابل کریں تو کیا کریں، قریش حیران تھے اور انہیں واقعی حیران ہونا چاہیے تھا۔

کافی غوروخوض کے بعد ایک راستہ سمجھ میں آیا کہ آپ کے چچا ابو طالب کے پاس جائیں اور مطالبہ کریں کہ وہ آپ کو آپ کے کام سے روک دیں۔ پھر انہوں نے اس مطالبے کو حقیقت و واقعیت کا جامہ پہنانے کے لیے یہ دلیل تیار کی کہ ان کے معبودوں کو چھوڑنے کی دعوت دینا اور یہ کہنا کہ یہ معبود نفع نقصان پہچانے یا اور کچھ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے درحقیقت ان معبودوں کی سخت توہین اور بہت بُری کالی ہے اور یہ ہمارے ان آباﺅاجداد کو احمق اور گمراہ قرار دینے کے بھی ہم معنی ہے جو اسی دین پر گزر چکے ہیں۔
۔۔ قریش کو یہی راستہ سمجھ میں آیا اور انہوں نے بڑی تیزی سے اس پر چلنا شروع کر دیا۔
قریش ابو طالب کی خدمت میں:
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اشراف قریش سے چند آدمی ابو طالب کے پاس گئے اور بولے اے ابو طالب! آپ کے بھتیجے نے ہمارے خداﺅں کو بُرا بھلا کہا ہے، ہمارے دین کی عیب چینی کی ہے، ہماری عقلوں کو حماقت زدہ کہا ہے، اور ہمارے باپ دادا کو گمراہ قرار دیا ہے۔
لہذا یا تو آپ انہیں اس سے روک دیں یا ہمارے اور ان کے درمیان سے ہٹ جائیں کیونکہ آپ بھی ہماری ہی طرح ان سے مختلف دین پر ہیں۔ ہم ان کے معاملے میں آپ کے لیے بھی کافی رہیں گے۔“
اس کے جواب میں ابو طالب نے نرم بات کہی اور رازدارانہ لب و لہجہ اختیار کیا۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔ اور رسول اللہﷺ اپنے سابقہ طریقے پر رواں دواں رہتے ہوئے اللہ کا دین پھیلانے اور اس کی تبلیغ کرنے میں مصروف رہے۔

حجاج کو روکنے کے لیے مجلس شوریٰ:
ان ہی دنوں قریش کے سامنے ایک اور مشکل آن کھڑی ہوئی یعنی ابھی کھلم کھلا تبلیغ پر چند ہی مہینے گزرے تھے کہ موسم حج قریب آگیا۔ قریش کو معلوم تھا کہ اب عرب کے وفود کی آمد شروع ہوگی۔ اس لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ نبی ﷺ کے متعلق کوئی ایسی بات کہیں کہ جس کی وجہ سے اہل عرب کے دلوں پر آپﷺ کی تبلیغ کا اثر نہ ہو۔
چنانچہ وہ اس بات پر گفت و شنید کے لیے ولید بن مغیرہ کے پاس اکٹھے ہوئے۔ ولید نے کہا اس بارے میں تم سب لوگ ایک رائے اختیار کر لو، تم میں باہم کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ خود تمہارا ہی ایک آدمی دوسرے آدمی کی تکذیب کر دے اور ایک کی بات دوسرے کی بات کو کاٹ دے۔ لوگوں نے کہا آپ ہی کہے۔ اس نے کہا۔ نہیں تم لوگ کہو۔ میں سنوں گا۔ اس پر چند لوگوں نے کہا ہم کہیں گے وہ کاہن ہے، ولید نے کہا نہیں بخدا وہ کاہن نہیں ہے، ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے، اس شخص کے اندر نہ کاہنوں جیسی گنگناہٹ ہے نہ ان کے جیسی قافیہ گوئی اور تک بندی۔

اس پر لوگوں نے کہا، تب ہم کہیں گے کہ وہ پاگل ہے۔ ولید نے کہا، نہیں پاگل بھی نہیں۔
ہم نے پاگل بھی دیکھے ہیں اور ان کی کیفیت بھی۔ اس شخص کے اندر نہ پاگلوں جیسی دم گھٹنے کی کیفیت اور الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان کے جیسی بہکی بہکی باتیں۔
لوگوں نے کہا، تب ہم کہیں گے کہ وہ شاعر ہے، ولید نے کہا وہ شاعر بھی نہیں۔ ہمیں رَجَز، ہجز، قریض، مقبوض، مبسوط سارے ہی اصناف سخن معلوم ہیں۔
اس کی بات بہرحال شعر نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا تب ہم کہیں گے کہ وہ جادوگر ہے۔ ولید نے کہا یہ شخص جادوگر بھی نہیں۔ ہم نے جادوگر اور ان کا جادو بھی دیکھا ہے۔ یہ شخص نہ تو ان کی طرح جھاڑ پھونک کرتا ہے نہ گرہ لگاتا ہے۔ لوگوں نے کہا: تب ہم کیا کہیں گے؟ ولید نے کہا۔ خدا کی قسم اس کی بات بڑی شیریں ہے، اس کی جڑ پائیدار ہے اور اس کی شاخ پھلدار، تم جو بات بھی کہو گے لوگ اسے باطل سمجھیں گے البتہ اس کے بارے میں سب سے مناسب بات یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ جادوگر ہے۔
اس نے ایسا کلام پیش کیا ہے جو جادو ہے، اس سے باپ بیٹے، بھائی بھائی، شوہر بیوی اور کنبے قبیلے میں پھوٹ پڑ جاتی ہے۔ بالآخر لوگ اسی تجویز پر متفق ہو کر وہاں سے رخصت ہوئے۔
بعض روایات میں یہ تفصیل بھی مذکور ہے کہ جب ولید نے لوگوں کی ساری تجویزیں رد کر دیں تو لوگوں نے کہا کہ پھر آپ ہی بے داغ رائے پیش کیجئے۔ اس پر ولید نے کہا ذرا سوچ لینے دو۔
اس کے بعد وہ سوچتا رہا یہاں تک کہ اپنی مذکورہ بالا رائے ظاہر کی۔ اس معاملے میں ولید کے متعلق سورہ مدثر کی سولہ آیات (11 تا 26) نازل ہوئیں جن میں سے چند آیات کے اندر اس کے سوچنے کی کیفیت کا نقشہ بھی کھینچا گیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
ترجمہ:”اس نے سوچا اور اندازہ لگایا۔ وہ غارت ہو، اس نے کیسا اندازہ لگایا، پھر غارت ہو، اس نے کیسا اندازہ لگایا! پھر نظر دوڑائی، پھر پیشانی سکیڑی اور منہ بسورا۔
پھر پلٹا اور تکبر کیا، آخرکار کہا یہ نرالا جادو ہے جو پہلے سے نقل ہوتا آرہا ہے، یہ محض انسان کا کلام ہے۔“
بہرحال یہ قرارداد طے پا چکی تو اسے جامہ عمل پہنانے کی کارروائی شروع ہوئی۔ کچھ کفار مکہ عازمین حج کے مختلف راستوں پر بیٹھ گئے۔ اور وہاں سے ہر گزرنے والے کو آپﷺ کے ”خطرے‘‘ سے آگاہ کرتے ہوئے آپﷺ کے متعلق تفصیلات بتانے لگے۔
اس کام میں پیش پیش ابو لہب تھا۔ وہ حج کے ایام میں لوگوں کے ڈیروں اور عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز کے بازاروں میں آپﷺ کے پپیچھے پیچھے لگا رہتا۔ آپﷺ اللہ کے دین کی تبلیغ کرتے اور ابو لہب پیچھے پیچھے یہ کہتا کہ اس کی بات نہ ماننا یہ جھوٹا بد دین ہے۔
اس دھوڑ دھوپ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس حج سے اپنے گھروں کو واپس ہوئے تو ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ آپﷺ نے دعویٰ نبوت کیا ہے اور یوں ان کے ذریعے پورے دیار عرب میں آپﷺ کا چرچا پھیل گیا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu