Open Menu

Ar-raheeq Al-makhtoom ...... Madni Zindagi - Article No. 1672

Ar-raheeq Al-makhtoom ...... Madni Zindagi

الرحیق المختوم، مدنی زندگی - تحریر نمبر 1672

عرب شیوخ کو اللوں تللوں میں اڑانے کیلئے یہودی سود پر قرض دیتے اور ان سے ان کی زمینیں، کھیتیاں گروی رکھوا لیتے

maulana safiur rahman mubarakpuri مولانا صفی الرحمان مبارک پوری ہفتہ 17 مارچ 2018

مدنی کو تین مرحلوں پر تقسیم کیا جاسکتاہے:
1۔ پہلا مرحلہ: جس میں فتنے اور اضطرابات برپا کئے گئے، اندر سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور باہر سے دشمنوں نے مدینہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے چڑھائیاں کیں۔ یہ مرحلہ صلح حدیبیہ ذی قعدہ 6 پر ختم ہو جاتا ہے۔
2۔ دوسرا مرحلہ: جس میں بت پرست قیادت کے ساتھ صلح ہوئی، یہ فتح مکہ رمضان 8 ھ پر منتہی ہوتا ہے۔

یہی مرحلہ شاہان عالم کو دعوت دین کرنے کا بھی مرحلہ ہے۔
3۔ تیسرا مرحلہ: جس میں خلقت اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئی۔ یہی مرحلہ رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے اخیر یعنی ربیع الاول 11 تک محیط ہے۔
پہلا مرحلہ: ہجرت کے وقت مدینہ کے حالات
ہجرت کا مطلب صرف یہی نہیں تھا کہ فتنے اور تمسخر کا نشانہ بننے سے نجات حاصل کر لی جائے بلکہ اس میں یہ مفہوم بھی شامل تھا کہ ایک پرامن علاقے کے اندر ایک نئے معاشرے کی تشکیل میں تعاون کیا جائے، اسی لیے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض قرار پایا تھا کہ اس وطن جدید کی تعمیر میں حصہ لے اور اس کی پختگی، حفاظت اور رفعت شان میں اپنی کوشش صرف کرے۔

(جاری ہے)


یہ بات تو قطعی طور پر معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ ہی اس معاشرے کی تشکیل کے امام، قائد اور رہنما تھے اور کسی نزاع کے بغیر سارے معاملات کی باگ ڈور آپﷺ ہی کے ہاتھ میں تھی۔ مدینے میں رسول اللہﷺ کو تین طرح کی قوموں سے سابقہ درپیش تھا جن میں ہر ایک کے حالات دوسرے سے بالکل جداگانہ تھے اور ہر ایک قوم کے تعلق سے کچھ خصوصی مسائل تھے جو دوسری قوموں کے مسائل سے مختلف تھے۔
یہ تینوں اقوام حسب ذیل تھیں:
1۔ آپﷺ کے پاکباز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی منتخب اور ممتاز جماعت۔
2۔ مدینے کے قدیم اور اصلی قبائل سے تعلق رکھنے والے مشرکین جو اب تک ایمان نہیں لائے تھے۔
3۔ یہود
(الف) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعلق سے آپﷺ کو جن مسائل کا سامنا تھا ان کی توضیح یہ ہے کہ ان کے لیے مدینے کے حالات مکے کے حالات سے قطعی طور پر مختلف تھے، مکے میں اگرچہ ان کا کلمہ ایک تھا اوران کے مقاصد بھی ایک تھے مگر وہ خود مختلف گھرانوں میں بکھرے ہوئے تھے۔
اور مجبور و مقہور اور ذلیل و کمزور تھے، ان کے ہاتھ میں کسی طرح کا کوئی اختیار نہ تھا۔ سارے اختیارات دشمنان دین کے ہاتھوں میں تھے اور دنیا کا کوئی بھی انسانی معاشرہ جن اجزاء اور لوازمات سے قائم ہوتا ہے مکہ کے مسلمانوں کے پاس وہ اجزاء سرے سے تھے ہی نہیں کہ ان کی بنیاد پر کسی نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل کر سکیں، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مکی سورتوں میں صرف اسلامی مبادیات کی تفصیل بیان کی گئی اور صرف ایسے احکامات نازل کئے گئے ہیں جن پر آدمی تنہا عمل کر سکتا ہے اس کے علاوہ نیکی بھلائی اور مکارمِ اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے اور رذیل و ذلیل کاموں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔

اس کے برخلاف مدینے میں مسلمانوں کی زمام کار پہلے ہی دن سے خود ان کے اپنے ہاتھ میں تھی، ان پر کسی دوسرے کا تسلط نہ تھا اس لیے اب وقت آ گیا تھا کہ مسلمان تہذیب و عمرانیات، معاشیات و اقتصادیات، سیاست و حکومت اور صلح و جنگ کے مسائل کا سامنا کریں اور ان کے لیے حلال و حرام اور عبادات و اخلاق وغیرہ مسائل زندگی کی بھرپور تنقیح کی جائے۔

وقت آگیا تھا کہ مسلمان ایک نیا معاشرہ یعنی اسلامی معاشرہ تشکیل کریں جو زندگی کے تمام مرحلوں میں جاہلی معاشرے سے مختلف اور عالم انسانی کے اندر موجود کسی بھی دوسرے معاشرے سے ممتاز ہو اور اس دعوت اسلامی کا نمائندہ ہو جس کی راہ میں مسلمانوں نے تیرہ سال تک طرح طرح کی مصیبتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔
ظاہر ہے اس طرح کے کسی معاشرے کی تشکیل ایک دن، ایک مہینہ یا ایک سال میں نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے تاکہ اس میں آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ احکام صادر کے جائیں، احکام قانون سازی کا کام مشق و تربیت اور عملی نفاذ کے ساتھ ساتھ مکمل کیا جائے، اب جہاں تک احکام و قوانین صادر اور فراہم کرنے کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کا کفیل تھا اور جہاں تک ان احکام کے نفاذ اور مسلمانوں کی تربیت و رہنمائی کا معاملہ ہے تو اس پر رسول اللہﷺ مامور تھے، چنانچہ ارشاد ہے:
”وہی ہے جس نے امیوں میں خود انہیں کے اندر سے ایک رسول بھیجا، جو ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک و صاف کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور یہ لوگ یقینا پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

ادھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ وہ آپﷺ کی طرف ہمہ تن متوجہ رہتے اور جو حکم صادر ہوتا اس سے اپنے آپ کو آراستہ کرکے خوشی محسوس کرتے، جیسا کہ ارشاد ہے:
”جب ان پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں۔“
چونکہ ان سارے مسائل کی تفصیل ہمارے موضوع میں داخل نہیں اس لیے ہم اس پر بقدرِ ضرورت گفتگو کریں گے۔

بہرحال یہی سب سے عظیم مسئلہ تھا جو رسول اللہﷺ کو مسلمانوں کے متعلق سے درپیش تھا اور بڑے پیمانے پر یہی دعوت اسلامیہ اور رسالت محمدیہﷺ کا مقصود بھی تھا لیکن یہ کوئی ہنگامی مسئلہ نہ تھا بلکہ مستقل اور دائمی تھا البتہ اس کے علاوہ کچھ دوسرے مسائل بھی تھے جو فوری توجہ کے طالب تھے جن کی مختصر کیفیت یہ ہے:
مسلمانوں کی جماعت میں دو طرح کے لوگ تھے، ایک وہ جو خود اپنی زمین، اپنے مکان اور اپنے اموال کے اندر رہ رہے تھے اور اس بارے میں ان کو اس سے زیادہ فکر نہ تھی جتنی کسی آدمی کو اپنے اہل و عیال میں امن و سکون کے ساتھ رہتے ہوئے کرنی پڑتی ہے۔
یہ انصار کا گروہ تھا اور ان میں پشتہا پشت سے باہم بڑی مستحکم عداوتیں اور نفرتیں چلی آرہی تھیں۔ ان کے پہلو بہ پہلو دوسرا گروہ مہاجرین کا تھا جو ان ساری سہولتوں سے محروم تھا اور لٹ پٹ کہ کسی نہ کسی طرح تن بہ تقدیر مدینہ پہنچ گیا تھا، ان کے پاس نہ تو رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ تھا نہ پیٹ پالنے کے لیے کوئی کام اور نہ سرے سے کسی قسم کا کوئی مال جس پر ان کی معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہو سکے، پھر ان پناہ گیر مہاجرین کی تعداد کوئی معمولی بھی نہ تھی اور ان میں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا تھا کیونکہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہے وہ ہجرت کر کے مدینہ آ جائے اور معلوم ہے کہ مدینے میں نہ کوئی بڑی دولت تھی نہ آمدنی کے ذرائع و وسائل چنانچہ مدینے کا اقتصادی توازن بگڑ گیا اور اسی تنگی ترشی میں اسلام دشمن طاقتوں نے بھی مدینے کا تقریباً اقتصادی بائیکاٹ کر دیا جس سے درآمدات بند ہو گئیں اور حالات انتہائی سنگین ہو گئے۔

(ب) دوسری قوم: یعنی مدینے کے اصل مشرک باشندوں کا حال یہ تھا کہ انہیں مسلمانوں پر کوئی بالادستی حاصل نہ تھی، کچھ مشرکین شک و شبہے میں مبتلاتھے اور اپنے آبائی دین کو چھوڑنے میں تردد محسوس کر رہے تھے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دل میں کوئی عداوت اور داؤ گھات نہیں رکھ رہے تھے، اس طرح کے لوگ تھوڑے ہی عرصے بعد مسلمان ہو گئے اور خالص اور پکے مسلمان ہوئے۔

اس کے برخلاف کچھ مشرکین ایسے تھے جو اپنے سینے میں رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ و عداوت چھپائے ہوئے تھے لیکن انہیں مدمقابل آنے کی جرأت نہ تھی بلکہ حالات کے پیش نظر آپﷺ سے محبت و خلوص کے اظہار پر مجبور تھے، ان میں سرفہرست عبداللہ ابی ابن سلول تھا، یہ وہ شخص ہے جس کو جنگ بعاث کے بعد اپنا سربراہ بنانے پر اوس و خزرج نے اتفاق کر لیا تھا حالانکہ اس سے قبل دونوں فریق کسی کی سربراہی پر متفق نہیں ہوئے تھے لیکن اب اس کے لیے مونگوں کا تاج تیار کیا جا رہا تھا تاکہ اس کے سر تاج شاہی رکھ کر اس کی باقاعدہ بادشاہت کا اعلان کر دیا جائے، یعنی یہ شخص مدینے کا بادشاہ ہونے ہی والا تھا کہ اچانک رسول اللہﷺ کی آمد آمد ہو گئی اور لوگوں کا رخ اس کے بجائے آپﷺ کی طرف ہوگیا، اس لیے اسے ا حساس تھا کہ آپﷺ ہی نے اس کی بادشاہت چھینی ہے لہٰذا وہ اپنے نہاں خانہ دل میں آپﷺ کے خلاف سخت عداوت چھپائے ہوئے تھا، اس کے باوجود جب اس نے جنگ کے بعد دیکھا کہ حالات اس کے مواقف نہیں ہیں اور وہ شرک پر قائم رہ کر اب دنیاوی فوائد سے بھی محروم ہوا چاہتا ہے تو اس نے بظاہر قبول اسلام کا اعلان کر دیا لیکن وہ اب بھی درپردہ کافر ہی تھا اس لیے جب بھی اسے رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے خلاف کسی شرارت کا موقع ملتا وہ ہرگز نہ چوکتا، اس کے ساتھی عموماً وہ روٴساء تھے جو اس کی بادشاہت کے زیر سایہ بڑے بڑے مناصب کے حصول کی توقع باندھے بیٹھے تھے مگر اب انہیں اس سے محروم ہو جانا پڑا تھا، یہ لوگ اس شخص کے شریک کار تھے اور اس کے منصوبوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے بسا اوقات نوجوانوں اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی اپنی چابکدستی سے اپنا آلہ کار بنا لیتے تھے۔

(ج) تیسری قوم یہود تھی، جیسا کہ گزر چکا ہے یہ لوگ اشوری اور رومی ظلم و جبر سے بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ یہ درحقیقت عبرانی تھے لیکن حجاز میں پناہ گزین ہونے کے بعد ان کی وضع قطع، زبان اور تہذیب و غیرہ بالکل عربی رنگ میں رنگ گئی تھی یہاں تک کہ ان کے قبیلوں اور افراد کے نام بھی عربی ہو گئے تھے اور ان کے اور عربوں کے آپس میں شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم ہو گئے تھے لیکن ان سب کے باوجود ان کی نسلی عصبیت برقرار تھی اور وہ عربوں میں مدغم نہ ہوئے تھے بلکہ اپنی اسرائیل یہودی قومیت پر فخر کرتے تھے اور عربوں کو انتہائی حقیر سمجھتے تھے، حتیٰ کہ انہیں امی کہتے تھے، جس کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا: بدھو، وحشی، رذیل، پسماندہ اور اچھوت۔
ان کا عقیدہ تھا کہ عربوں کا مال ان کے لیے مباح ہے، جیسے چاہیں کھائیں۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے: ترجمہ
”انہوں نے کہا ہم پر امتوں کے معاملے میں کوئی راہ نہیں۔“
یعنی امیوں کا مال کھانے میں ہماری کوئی پکڑ نہیں، ان یہودیوں میں اپنے دین کی اشاعت کے لیے سرگرمی نہیں پائی جاتی تھی، لے دے کر ان کے پاس دین کی جو پونجی رہ گئی تھی وہ تھی فال گیری، جادو اور جھاڑ پھونک وغیرہ، انہیں چیزوں کی بدولت وہ اپنے آپ کو صاحب علم و فضل اور روحانی قائد و پیشوا سمجھتے تھے۔

یہودیوں کو دولت کمانے کے فنون میں بڑی مہارت تھی۔ غلے، کھجور، شراب اور کپڑے کی تجارت انہیں کے ہاتھ میں تھی، یہ لوگ غلے، کپڑے اور شراب درآمد کرتے تھے اور کھجور برآمد کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے مختلف کام تھے جن میں وہ سرگرم رہتے تھے، وہ اپنے اموال تجارت میں عربوں سے دوگنا تین گنا منافع لیتے تھے اور اسی پر بس نہ کرتے تھے بلکہ وہ سود خوار بھی تھے اس لیے وہ عرب شیوخ اور دوسروں کو سودی قرض کے طور پر بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے جنہیں یہ سردار حصول شہرت کے لیے اپنی مدح سرائی کرنے والے شعراء وغیرہ پر بالکل فضول اور بے دریغ خرچ کر دیتے تھے۔
ادھر یہود ان رقموں کے عوض ان سرداروں سے ان کی زمینیں، کھیتیاں اور باغات وغیرہ گروی رکھوا لیتے تھے اور چند سال گزرتے گزرتے ان کے مالک بن بیٹھے تھے، یہ لوگ دسیسہ کاریوں، سازشوں اور جنگ و فساد کی آگ بھڑکانے میں بھی بڑے ماہر تھے، ایسی باریکی سے ہمسایہ قبائل میں دشمنی کے بیچ بوتے اور ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکاتے کہ ان قبائل کو احساس تک نہ ہوتا، اس کے بعد ان قبائل میں پیہم جنگ برپا رہتی اور اگر خدانخواستہ جنگ کی یہ آگ سرد پڑتی دکھائی دیتی تو یہود کی خفیہ انگلیاں پھر حرکت میں آ جاتیں اور جنگ پھر بھڑک اٹھتی۔
کمال یہ تھا کہ یہ لوگ قبائل کو لڑا بھڑا کر چپ چاپ کنارے بیٹھ رہتے اور عربوں کی تباہی کا تماشا دیکھتے، البتہ بھاری بھر کم سودی قرض دیتے رہتے تاکہ سرمائے کی کمی کے سبب لڑائی بند نہ ہونے پائے اور اس طرح وہ دوہرا نفع کماتے رہتے، ایک طرف اپنی یہودی جمعیت کو محفوظ رکھتے اور دوسری طرف سود بازار ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے بلکہ سود اور سود کے ذریعے بڑی بڑی دولت کماتے۔

یثرب میں ان یہود کے تین مشہور قبیلے تھے۔
1۔ بنو قینقاع۔ یہ خزرج کے حلیف تھے اور ان کی آبادی مدینے کے اندر ہی تھی۔
2۔ بنو نضیر۔
3 ۔بنو قریظہ۔ یہ دونوں قبیلے اوس کے حلیف تھے اور ان دونوں کی آبادی مدینے کے اطراف میں تھی۔
ایک مدت سے یہی قبائل اوس و خزرج کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا رہے تھے اور جنگ بعاث میں اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ خود بھی شریک ہوئے تھے۔

فطری بات ہے کہ ان یہود سے اس کے سوا کوئی اور توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ یہ اسلام کو بغض و عداوت کی نظر سے دیکھیں کیونکہ پیغمبر ان کی نسل سے نہ تھے کہ ان کی نسلی عصبیت کو، جو ان کی نفسیات اور ذہنیت کا جزو لاینفک بنی ہوئی تھی، سکون ملتا، پھر اسلام کی دعوت ایک صالح دعوت تھی جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتی تھی، بغض و عداوت کی آگ بجھاتی تھی، تمام معاملات میں امانتداری برتنے اور پاکیزہ اور حلال مال کھانے کا پابند بناتی تھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ اب یثرب کے قبائل آپس میں جڑ جائیں گے اور ایسی صورت میں لازماً وہ یہود کے پنجوں سے آزاد ہو جائیں گے۔

لہٰذا ان کی تاجرانہ سرگرمی ماند پڑ جائے گی اور وہ اس سودی دولت سے محرم ہو جائیں گے جس پر ان کی مالداری کی چکی گردش کر رہی تھی بلکہ یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں یہ قبائل بیدار ہو کر اپنے حساب میں وہ سودی اموال بھی داخل نہ کر لیں جنہیں یہود نے ان سے بلا عوض حاصل کیا تھا اور اس طرح وہ ان زمینوں اور باغات کو واپس نہ لے لیں جنہیں سود کے ضمن میں یہودیوں نے ہتھیا لیا تھا۔

جب سے یہود کو معلوم ہوا تھا کہ اسلامی دعوت یثرب میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے تب ہی سے انہوں نے ان ساری باتوں کو اپنے حساب میں داخل کر رکھا تھا اس لیے یثرب میں رسول اللہﷺ کی آمد کے وقت ہی سے یہود کو اسلام اور مسلمانوں سے سخت عداوت ہو گئی تھی، اگرچہ وہ اس کے مظاہرے کی جسارت خاصی مدت بعد کر سکے۔ اس کیفیت کا بہت صاف صاف پتا ابن اسحاق کے بیان کئے ہوئے ایک واقعے سے لگتا ہے۔

ان کا ارشاد ہے کہ مجھے ام المومنین حضرت صفیہ بنت یحییٰ بن اخطب رضی اللہ عنہا سے روایت ملی ہے کہ انہوں نے فرمایا میں اپنے والد اور چچا ابو یاسر کی نگاہ میں اپنے والد کی سب سے چہیتی اولاد تھی، میں چچا اور والد سے جب کبھی ان کی کسی بھی اولاد کے ساتھ ملتی تو وہ اس کے بجائے مجھے ہی اٹھاتے۔ جب رسول اللہﷺ تشریف لائے اور قبا میں بنو عمرو بن عوف کے یہاں نزول فرما ہوئے تو میرے والد یحییٰ بن اخطب اور میرے چچا ابو یاسر آپﷺ کی خدمت میں صبح تڑکے حاضر ہوئے اور غروب آفتاب کے وقت واپس آئے۔
بالکل تھکے ماندے، گرتے پڑتے، لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے۔ میں نے حسب معمول چہک کر ان کی طرف دوڑ لگائی لیکن انہیں اس قدر غم تھا کہ بخدا دونوں میں سے کسی نے بھی میری طرف التفات نہ کیا اور میں نے اپنے چچا کو سنا وہ میرے والد یحییٰ بن اخطب سے کہہ رہے تھے:
کیا یہ وہی ہے؟
انہوں نے کہا‘ ہاں، خدا کی قسم۔
چچا نے کہا‘ آپ انہیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں؟
والد نے کہا‘ ہاں!
چچا نے کہا‘ تو اب آپ کے دل میں ان کے متعلق کیا ارادے ہیں؟
والد نے کہا‘ عداوت۔
خدا کی قسم جب تک زندہ رہوں گا۔ اس کی شہادت صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ملتی ہے جس میں حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ موصوف ایک نہایت بلند پایہ یہودی عالم تھے، آپ کو جب بنو النجار میں رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کی خبر ملی تو وہ آپﷺ کی خدمت میں بعجلت تمام حاضر ہوئے اور چند سوالات پیش کئے جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے اور جب نبیﷺ کی طرف سے ان کے جوابات سنے تو وہیں اسی وقت مسلمان ہو گئے، پھر آپﷺ سے کہا کہ یہود ایک بہتان باز قوم ہے، اگر انہیں اس سے قبل کہ آپﷺ کچھ دریافت فرمائیں میرے اسلام لانے کا پتا لگ گیا تو وہ آپ کے پاس مجھ پر بہتان تراشیں گے لہٰذا رسول اللہﷺ نے یہود کو بلا بھیجا، وہ آئے اور ادھر عبداللہ رضی اللہ عنہ بن اسلام گھر کے اندر چھپ گئے تھے تو رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا کہ عبداللہ بن سلام تمہارے اندر کیسے آدمی ہیں؟ انہوں نے کہا ہمارے سب سے بڑے عالم ہیں ا ور سب سے بڑے عالم کے بیٹے ہیں، ہمارے سب سے اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں۔
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سب سے اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں اور ہم میں سب سے افضل ہیں اور سب سے افضل آدمی کے بیٹے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا‘ اچھا یہ بتاؤ اگر عبداللہ مسلمان ہو جائیں تو؟ یہود نے دو یا تین بار کہا اللہ ان کو اس سے محفوظ رکھے، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ برآمد ہوئے اور فرمایا:
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
اتنا سننا تھا کہ یہود بول پڑے: یہ ہمارا سب سے برا آدمی ہے اور سب سے برے آدمی کا بیٹا ہے اور اسی وقت ان کی برائیاں شروع کر دیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اس پر حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے جماعت یہود اللہ سے ڈرو، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم لوگ جانتے ہو کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں اور آپﷺ حق لے کر تشریف لائے ہیں لیکن یہودیوں نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔
یہ پہلا تجربہ تھا جو رسول اللہﷺ کو یہود کے متعلق حاصل ہوا اور مدینے میں داخلے کے پہلے ہی دن حاصل ہوا۔
یہاں تک جو کچھ ذکر کیا گیا یہ مدینے کے داخلی حالات سے متعلق تھا، بیرون مدینہ مسلمانوں کے سب کے کڑے دشمن قریش تھے اور تیرہ سال تک جب کہ مسلمان ان کے زیر دست تھے، دہشت مچانے، دھمکی دینے اور تنگ کرنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کر چکے تھے، طرح طرح کی سختیاں اور مظالم کر چکے تھے، منظم اور وسیع پروپیگنڈے اور نہایت صبر آزما نفسیاتی حربے استعمال میں لا چکے تھے، پھر جب مسلمانوں نے مدینہ ہجرت کی تو قریش نے ان کی زمینیں، مکانات اور مال و دولت سب کچھ ضبط کر لیا اور مسلمانوں اور ان کے اہل و عیال کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے بلکہ جس کو پا سکے قید کر کے طرح طرح کی اذیتیں دیں، پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ سربراہ دعوت حضرت محمد رسول اللہﷺ کو قتل کرنے اور آپﷺ کو دعوت دین سے اکھاڑنے کے لیے خوفناک سازشیں کیں اور اسے رو بہ عمل لانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کر دیں، با ایں ہمہ جب مسلمان کسی طرح بچ بچا کر کوئی پانچ سو کلومیٹر دور مدینہ کی سرزمین پر جا پہنچے تو قریش نے اپنی ساکھ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھناؤنا سیاسی کردار انجام دیا، یعنی یہ چونکہ حرم کے باشندے اور بیت اللہ کے پڑوسی تھے اور اس کی وجہ سے انہیں اہل عرب کے درمیان قیادت اور دنیاوی ریاست کا منصب حاصل تھا اس لیے انہوں نے جزیرة العرب کے دوسرے مشرکین کو بھڑکا اور ورغلا کر مدینے کا تقریباً مکمل بائیکاٹ کرا دیا جس کی وجہ سے مدینہ کی درآمدات نہایت مختصر رہ گئیں جب کہ وہاں مہاجرین پناہ گیروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی تھی، درحقیقت مکے کے ان سرکشوں اور مسلمانوں کے اس نئے وطن کے درمیان حالت جنگ قائم ہو چکی تھی اور یہ نہایت احمقانہ بات ہے کہ اس جھگڑے کا الزام مسلمانوں کے سر ڈالا جائے۔

مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ جس طرح ان کے اموال ضبط کئے گئے تھے اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کے اموال ضبط کریں، جس طرح انہیں ستایا گیا تھا اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کو ستائیں ا ور جس طرح مسلمانوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں اسی طرح مسلمان بھی ان سرکشوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کریں اور ان سرکشوں کو جیسے کو تیسا والا بدلہ دیں تاکہ انہیں مسلمانوں کو تباہ کرنے اور بیخ و بُن سے اکھاڑنے کا موقع نہ مل سکے۔

یہ تھے وہ قضایا اور مسائل جن سے رسول اللہﷺ کو مدینہ تشریف لانے کے بعد بحیثیت رسول و ہادی اور امام و قائد واسطہ درپیش تھا۔
رسول اللہﷺ نے ان تمام مسائل کے تئیں مدینہ میں پیغمبرانہ کردار اور قائدانہ رول ادا کیا اور جو قوم نرمی و محبت یا سختی و درشتی جس سلوک کی مستحق تھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رحمت و محبت کا پہلو سختی اور درشتی پر غالب تھا یہاں تک کہ چند برسوں میں زمام کار اسلام اور اہل اسلام کے ہاتھ آگئی۔

Browse More Islamic Articles In Urdu