Open Menu

Khandan E Nabuwwat - Article No. 1210

Khandan E Nabuwwat

خاندان نبوت - تحریر نمبر 1210

اَبرہَہَ صباح حبشی ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر کعبے کو ڈھانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اسی دوران اللہ نے چڑیوں کا ایک جھنڈ بھیجا جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے اور اللہ نے اسی سے انہیں کھائے ہوئے بھس کی طرح بنا دیا

maulana safiur rahman mubarakpuri مولانا صفی الرحمان مبارک پوری بدھ 27 ستمبر 2017

خاندان نبُوت
نسب:
نبی ﷺ کا سلسلہ نسب تین حصوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک حصہ کی صحت پر اہل سِیر اور ماہرین انساب کا اتفاق ہے۔ یہ عدنان تک مُنتہی ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ جس میں اہل سیر کا اختلاف ہے، کسی نے توقّف کیا ہے اور کوئی قائل ہے۔ یہ عدنان سے اوپر ابراہیم علیہ السلام تک منتہی ہوتا ہے۔ تیسرا حصہ جس میں یقینا کچھ غلطیاں ہیں، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر حضرت آدم علیہ السلام تک جاتا ہے۔

اس کی جانب اشارہ گزر چکا ہے۔ ذیل میں تینوں حصوں کی قدرے تفصیل پیش کی جارہی ہے۔
پہلا حصہ:
محمد ابن عبداللہ بن عبدالمطلب (شَیبہ) بن ہاشم (عَمرو) بن عبد مناف (مغیرہ) بن قُصیّ (زید) بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فِہر (انہی کا لقب قریش تھا اور ان ہی کی طرف قبیلہ قریش منسوب ہے) بن مالک بن نضر (قیس) بن کنانہ بن خُزَیمہ بن مدرکہ (عامر) بن الیاس بن مضر بن نِزار بن مَعَد بن عَدنان۔

(جاری ہے)


دوسرا حصہ:
عدنان سے اوپر یعنی عدنان بن او بن ہمیسع بن سلامان بن عوص بن بوز بن قموال بن ابی بن عوام بن تاشد بن حزا بن بلداس بن یدلاف بن طابخ بن جاحم بن ناحش بن ماخی بن عیض بن عبقر بن عبید بن الدعا بن حمدان بن سنبر بن یثربی بن یحزن بن یلحن بن ارعوی بن عیض بن دیشان بن عیصر بن افناد بن ایہام بن مقصر بن ناحث بن زارح بن سمی بن مزی بن عوضہ بن عرام بن قیدار بن اسماعیل علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام۔

تیسرا حصہ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر۔ ابراہیم بن تارح (آزر) بن ناحور بن ساروع (یا ساروغ) بن راعو بن فالخ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ (کہا جاتا ہے کہ یہ ادریس علیہ السلام کا نام ہے) بن یرد بن مہلائیل بن قینان بن آنوشہ بن آدم علیہ السلام ۔
خانوادہ:
نبیﷺ کا خانوادہ اپنے جَدِ اعلیٰ ہاشم بن عبد مناف کی نسبت سے خانوادہ ہاشمی کے نام سے معروف ہے۔
اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہاشم اور ان کے بعد کے بعض افراد کے مختصر حالات پیش کر دیئے جائیں۔
1۔ ھاشم: ہم بتاچکے ہیں کہ جب بنوعبد مناف اور بنو عبدالدار کے درمیان عہدوں کی تقسیم پر مصالحت ہوگئی تو عبد مناف کی اولاد میں ہاشم ہی کو سِقَایہَ اور رِفاَدہ یعنی حجاج کرام کو پانی پلانے اور ان کی میزبانی کرنے کا منصب حاصل ہوا۔
ہاشم بڑے معزز اور مالدار تھے۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مکّے میں حاجیوں کو شوربا روٹی سان کر کھلانے کا اہتمام کیا۔ ان کا اصل نام عَمرو تھا لیکن روٹی توڑ کر شوربے میں ساننے کی وجہ سے ان کو ہاشم کہا جانے لگا کیونکہ ہاشم کے معنی ہیں توڑنے والا۔ پھر یہی ہاشم وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے قریش کے لیے گرمی اور جاڑے کے دو سالانہ تجارتی سفروں کی بنیاد رکھی۔
ان کے بارے میں شاعر کہتا ہے: ترجمہ:
”یہ عَمرو ہی ہیں جنہوں نے قحط کی ماری ہوئی اپنی لاغر قوم کو مکہ میں روٹیاں توڑ کر شوربے میں بھگو بھگو کر کھلائیں اور جاڑے اور گرمی کے دونوں سفروں کی بنیاد رکھی۔“
ان کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ وہ تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے گئے۔ راستے میں مدینہ پہنچے تو وہاں قبیلہ بنی نجّار کی ایک خاتون سَلمٰی بنت عَمرو سے شادی کرلی اور کچھ دنوں وہیں ٹھہرے رہے۔
پھر بیوی کو حالت حَمل میں میکے ہی میں چھوڑ کر ملک شام روانہ ہوگئے۔ اور وہاں جاکر فلسطین کے شہر غَزَّہ میں انتقال کر گئے۔ ادھر سَلمیٰ کے بطن سے بچہ پیدا ہوا۔ یہ 497ء کی بات ہے۔ چونکہ بچے کے سر کے بالوں میں سفیدی تھی اس لیے سلمیٰ نے اس کا نام شَیبہَ رکھا۔ اور یَثرِب میں اپنے میکے ہی کے اندر اس کی پرورش کی۔ آگے چل کر یہی بچہ عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہوا۔
عرصے تک خاندان ہاشم کے کسی آدمی کو اس کے وجود کا علم نہ ہوسکا۔ ہاشم کے کل چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں جن کے نام یہ ہیں، اسد، ابو صیفی، نضلہ، عبدالمطلب ۔۔۔۔۔ شفاء، خالدہ، ضعیفہ، رقیہ اور جنة۔
2 ۔ عبدالمطلب: پچھلے صفحات سے معلوم ہو چکا ہے سِقَایَہ اور رِفادہ کا منصب ہاشم کے بعد ان کے بھائی کو ملا۔ یہ بھی اپنی قوم میں بڑی خوبی و اعزاز کے مالک تھے۔
ان کی بات ٹالی نہیں جاتی تھی۔ ان کی سخاوت کے سبب قریش نے ان کا لقب فیاض رکھ چھوڑا تھا۔ جب شَیبَہ یعنی عبدالمطلب ۔۔۔ دس بارہ برس کے ہوگئے تو مطلب کو ان کا علم ہوا اور وہ انہیں لینے کے لیے روانہ ہُوئے۔ جب یثرب کے قریب پہنچے اور شیبہ پر نظر پڑی تو اشکبار ہوگئے، (انہیں سینے سے لگا لیا اور پھر اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر مکّہ کے لیے روانہ ہوگئے، مگر شَیبہَ نے ماں کی اجازت کے بغیر ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔
اس لیے مُطَّلِب ان کی ماں سے اجازت کے طالب ہوئے مگر ماں نے اجازت نہ دی، آخر مطلب نے کہا کہ یہ اپنے والد کی حکومت اور اللہ کے حرم کی طرف جارہے ہیں۔ اس پر ماں نے اجازت دے دی اور مطلب انہیں اپنے اُونٹ پر بٹھا کر مکہ لے آئے۔ مکے والوں نے دیکھا تو کہا یہ عبدالمطلب ہے یعنی مطلب کا غلام ہے۔ مطلب نے کہا نہیں نہیں۔ یہ میرا بھتیجا یعنی میرے بھائی ہاشم کا لڑکا ہے۔
پھر شَیبہہَ نے مطلب کے پاس پرورش پائی اور جوان ہوئے۔۔۔۔ اس کے بعد مقام رومان (یمن) میں مطلب کی وفات ہوگئی اور ان کے چھوڑے ہوئے مناصب عبدالمطلب کو حاصل ہوئے۔ عبدالمطلب نے اپنی قوم میں اس قدر شرف و اعزاز حاصل کیا کہ ان کے آباء و اجداد میں بھی کوئی اس مقام کو نہ پہنچ سکا تھا، قوم نے انہیں دل سے چاہا اور ان کی بڑی عزت و قدر کی۔
جب عبدالمطلب کی وفات ہوگئی تو نوفل نے عبدالمطلب کے صحن پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔
عبدالمطلب نے قریش کے کچھ لوگوں سے اپنے چچا کے خلاف مدد چاہی لیکن انہوں نہ یہ کہہ کہ معذرت کردی کہ ہم تمہارے اور تمہارے چچا کے درمیان دخیل نہیں ہوسکتے۔ آخر عبدالمطلب نے بنی نجِّار میں اپنے ماموں کو کچھ اشعار لکھ بھیجے جس میں ان سے مدد کی درخواست کی تھی۔ جواب میں ان کا ماموں ابو سعد بن عدی اسی (80) سوار لے کر روانہ ہوا۔ اور مکے کے قریب اَبطَح میں اترا۔
عبدالمطلب نے وہیں ملاقات کی اور کہا ماموں جان گھر تشریف لے چلیں۔ ابو سَعد نے کہا: نہیں، خدا کی قسم! یہاں تک کہ نوفل سے مل لوں، اس کے بعد ابو سعد آگے بڑھا اور نوفل کے سر پر آن کھڑا ہوا۔ نوفل حَطِیم میں مشائخ قریش کے ہمراہ بیٹھا تھا، ابو سعد نے تلوار بے نیام کرتے ہوئے کہا اس گھر کے رب کی قسم! اگر تم نے میرے بھانجے کی زمین واپس نہ کی تو یہ تلوار تمہارے اندر پیوست کر دوں گا۔
نوفل نے کہا: اچھا! لو میں نے واپس کردی۔ اس پر ابو سعد نے مشائخِ قریش کو گواہ بنایا پھر عبدالمطلب کے گھر گیا اور تین روز مقیم رہ کر عمرہ کرنے کے بعد مدینہ واپس چلا گیا۔
اس واقعے کے بعد نوفل نے بنی ہاشم کے خلاف بنی عبد شمس سے باہمی تعاون کا عہدوپیمان کیا۔ ادھر بَنُو خزاعہ نے دیکھا کہ بنو نجار نے عبدالمطلب کی اس طرح مدد کی ہے تو کہنے لگے کہ عبدالمطلب جس طرح تمہاری اولاد ہے ہماری بھی اولاد ہے۔
لہٰذا ہم پر اس کی مدد کا حق زیادہ ہے ۔۔۔۔ اس کی وجہ یہ تھی کی عبد مناف کی ماں قبیلہ خزاعہ ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔۔۔ چنانچہ بنو خزاعہ نے دارالنَّدوہ میں جا کر بنو عبد شمس اور بنو نوفل کے خلاف بنو ہاشم سے تعاون کا عہد و پیمان کیا۔ یہی پیمان تھا جو آگے چل کر اسلامی دور میں فتح مکہ کا سبب بنا۔
بیت اللہ کے تعلق سے عبدالمطلب کے ساتھ دو اہم واقعات پیش آئے، ایک چاہِ زَمَ زَم کی کھدائی کا واقعہ اور دوسرا فِیل کا واقعہ۔

چاہِ زَم زَم کی کھدائی:
پہلے واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالمطلب نے خواب دیکھا کہ انہیں زم زم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا جارہا ہے اور خواب ہی میں انہیں اس کی جگہ بھی بتائی گئی۔ انہوں نے بیدار ہونے کے بعد کھدائی شروع کی اور رفتہ رفتہ وہ چیزیں برآمد ہوئیں جو بنو جرہم نے مکہ چھوڑتے وقت چاہِ زم زم میں دفن کی تھیں۔
یعنی تلواریں، زرہیں، اور سونے کے دونوں ہرن، عبدالمطلب نے تلواروں سے کعبے کا دروازہ ڈھالا۔ سونے کے دونوں ہرن بھی دروازے ہی میں فٹ کئے اور حاجیوں کو زم زم پلانے کا بندوبست کیا۔
کھدائی کے دوران یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ جب زم زم کا کنواں نمودار ہو گیا تو قریش نے عبدالمطلب سے جھگڑا شروع کیا اور مطالبہ کیا کہ ہمیں کھدائی میں شریک کرلو۔
عبدالمطلب نے کہا میں ایسا نہیں کرسکتا۔ میں اس کام کے لیے مخصوص کیا گیا ہوں۔ لیکن قریش کے لوگ باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ فیصلے کے لیے بنو سعد کی ایک کاہنہ عورت کے پاس جانا طے ہوا اور لوگ مکّہ سے روانہ بھی ہوگئے۔ لیکن راستے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی علامات دکھلائیں کہ وہ سمجھ گئے کہ زم زم کا کام قدرت کی طرف سے عبدالمطلب کے ساتھ مخصوص ہے، اس لیے راستے ہی سے پلٹ آئے۔
یہی موقع تھا جب عبدالمطلب نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے انہیں دس لڑکے عطا کئے اور وہ سب کے سب اس عمر کو پہنچے کہ ان کا بچاﺅ کر سکیں تو وہ ایک لڑکے کو کعبہ کے پاس قربان کر دیں گے۔
واقعہ فیل:
دوسرے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ اَبرہَہَ صباح حبشی نے (جو نجاشی، بادشاہ حبش کی طرف سے یمن کا گورنر جنرل تھا) جب دیکھا کہ اہل عرب خانہ کعبہ کا حج کرتے ہیں تو صنعاء میں ایک بہت بڑا کَلِیسا تعمیر کیا۔
۔۔ اور چاہا کہ عرب کا حج اسی کی طرف پھیر دے مگر جب اس کی خبر بنو کنانہ کے ایک آدمی کو ہوئی تو اس نے رات کے وقت کلیسا کے اندر گھس کر اس کے قبلے پر پائخانہ پوت دیا۔ ابرہہ کو پتا چلا تو سخت برہم ہوا۔ اور ساٹھ ہزار کا ایک لشکر جرار لے کر کعبے کو ڈھانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لیے ایک زبردست ہاتھی بھی منتخب کیا۔ لشکر میں کل نو یا تیرہ ہاتھی تھے۔
ابرہہ یمن سے یلغار ہوا مغمس پہنچا اور وہاں اپنے لشکر کو ترتیب دے کر اور ہاتھی کو تیار کرکے مکے میں داخلے کے لیے چل پڑا، جب مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادی مُحَسّر میں پہنچا تو ہاتھی بیٹھ گیا اور کعبے کی طرف بڑھنے کے لیے کسی طرح نہ اٹھا۔ اس کا رخ شمال جنوب یا مشرق کی طرف کیا جاتا تو اٹھ کر دوڑنے لگتا۔ لیکن کعبے کی طرف کیا جاتا تو بیٹھ جاتا۔
اسی دوران اللہ نے چڑیوں کا ایک جھنڈ بھیج دیا جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے اور اللہ نے اسی سے انہیں کھائے ہوئے بھس کی طرح بنا دیا۔ چڑیاں ابابیل اور قمری جیسی تھیں، ہر چڑیا کے پاس تین تین کنکریاں تھیں، ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں، کنکریاں چنے جیسی تھیں، مگر جس کسی کو لگ جاتی تھیں اس کے اعضاء کٹنا شروع ہو جاتے تھے اور وہ مر جاتا تھا، یہ کنکریاں ہر آدمی کو نہیں لگی تھیں لیکن لشکر میں ایسی بھگڈر مچی کہ ہر شخص دوسرے کو روندتا کچلتا گرتا پڑتا بھاگ رہا تھا۔
پھر بھاگنے والے ہر راہ پر گر رہے تھے اور ہر چشمے پر مر رہے تھے۔ ادھر ابرہہ پر اللہ نے ایسی آفت بھیجی کہ اس کی انگلیوں کے پور جھڑ گئے اور صنعاء پہنچتے پہنچتے چوزے جیسا ہو گیا، پھر اس کا سینہ پھٹ گیا، دل باہر نکل آیا اور وہ مر گیا۔
ابرہہ کے اس حملے کے موقع پر مکے کے باشندے جان کے خوف سے گھاٹیوں میں بکھر گئے تھے اور پہاڑیوں پر جا چھپے تھے۔
جب لشکر پر عذاب نازل ہو گیا تو اطمینان سے اپنے گھروں کو پلٹ آئے۔
یہ واقعہ ۔۔۔۔۔۔ بیشتر اہل سیر کے بقول ۔۔۔۔۔ نبی ﷺ کی پیدائش سے صرف پچاس یا پچپن دن پہلے ماہ محرم میں پیش آیا تھا لہٰذا یہ 571ء کی فروری کے اواخر یا مارچ کے اوائل کا واقعہ ہے۔ یہ درحقیقت ایک تمہیدی نشانی تھی جو اللہ نے اپنے نبی اور اپنے کعبہ کے لیے ظاہر فرمائی تھی کیونکہ آپ بیت المقدس کو دیکھئے کہ اپنے دور میں اہل اسلام کا قبلہ تھا اور وہاں کے باشندے مسلمان تھے اس کے باوجود اس پر اللہ کے دشمن یعنی مشرکین کا تسلط ہو گیا تھا جیسا کہ بخت نصر کے حملہ 587 ق م اور اہل روما کے قبضہ 70ء سے ظاہر ہے۔
لیکن اس کے برخلاف کعبہ پر عیسائیوں کو تسلط حاصل نہ ہوسکا، حالانکہ اس وقت یہی مسلمان تھے اور کعبے کے باشندے مشرک تھے۔
پھر یہ واقعہ ایسے حالات میں پیش آیا کہ اس کی خبر اس وقت متمدن دنیا کے بیشتر علاقوں یعنی روم و فارس میں آناً فاناً پہنچ گئی۔ کیونکہ حبشہ کا رومیوں سے بڑا گہرا تعلق تھا اور دوسری طرف فارسیوں کی نظر رومیوں پر برابر رہتی تھی اور وہ رومیوں اور ان کے حلیفوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا برابر جائزہ لیتے رہتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کے بعد اہل فارس نے نہایت تیزی سے یمن پر قبضہ کر لیا۔ اب چونکہ یہی دو حکومتیں اس وقت متمدن دنیا کے اہم حصے کی نمائندہ تھیں۔ اس لیے اس واقعے کی وجہ سے دنیا کی نگاہیں خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ انہیں بیت اللہ کے شرف و عظمت کا ایک کھلا ہوا خدائی نشان دکھلائی پڑ گیا۔ اور یہ بات دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی کہ اس کو اللہ نے تقدیس کے لیے منتخب کیا ہے۔
لہٰذا آئندہ یہاں کی آبادی سے کسی انسان کا دعویٰ نبوت کے ساتھ اٹھنا اس واقعے کے تقاضے کے عین مطابق ہوگا۔ اور اس خدائی حکمت کی تفسیر ہوگا جو عالم اسباب سے بالاتر طریقے پر اہل ایمان کے خلاف مشرکین کی مدد میں پوشیدہ تھی۔
عبدالمطلب کے کل دس بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں:حارث، زبیر، ابو طالب، عبداللہ، حمزہ، ابو لہب، غیداق، مقوم، صفار اور عباس۔
بعض نے کہا ہے کہ گیارہ تھے۔ ایک کا نام قتم تھا اور بعض اور لوگوں نے کہا ہے کہ تیرہ تھے۔ ایک کا نام عبدالکعبہ اور ایک کا نام حجل تھا۔ لیکن دس کے قائیلین کہتے ہیں کہ مقوم ہی کا دوسرا نام عبدالکعبہ اور غیداق کا دوسرا حجل تھا اور قتم نام کا کوئی شخص عبدالمطلب کی اولاد میں نہ تھا۔۔۔۔۔عبدالمطلب کی بیٹیاں چھ تھیں۔ نام یہ ہیں: ام لحکیم (ان کا نام بیضاء ہے)، برہ، عاتکہ، صفیہ، ارویٰ، اور امیمہ۔

3۔ عبداللہ ۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہﷺ کے والد محترم: ان کی والدہ کا نام فاطمہ تھا اور وہ عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ کی صاحبزادی تھیں۔ عبدالمطلب کی اولاد میں عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت، پاکدامن اور چہیتے تھے اور ذبیح کہلاتے تھے۔ ذبیح کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ جب عبدالمطلب کے لڑکوں کی تعداد پوری دس ہو گئی اور وہ بچاﺅ کرنے کے لائق ہو گئے تو عبدالمطلب نے انہیں اپنی نذر سے آگاہ کیا۔
سب نے بات مان لی۔ اس کے بعد عبدالمطلب نے قسمت کے تیروں پر ان سب کے نام لکھے۔۔۔۔ اور ہبل کے قیم کے حوالے کیا۔ قیم نے تیروں کو گردش دے کر قرعہ نکالا تو عبداللہ کا نام نکلا۔ عبدالمطلب نے عبداللہ کا ہاتھ پکڑا، چھری لی اور ذبح کرنے کے لیے خانہ کعبہ کے پاس لے گئے۔ لیکن قریش اور خصوصاً عبداللہ کے ننہیال والے یعنی بنو مخزوم اور عبداللہ کے بھائی ابو طالب آڑے آئے۔
عبدالمطلب نے کہا تب میں اپنی نذر کا کیا کروں؟ انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ کسی خاتون عرافہ کے پاس جا کر حل دریافت کریں۔ عبدالمطلب ایک عرافہ کے پاس گئے۔ اس نے کہا کہ عبداللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کریں۔ اگر عبداللہ کے نام قرعہ نکلے تو دس مزید اونٹ بڑھا دیں۔ اس طرح اونٹ بڑھاتے جائیں اور قرعہ اندازی کرتے جائیں۔ یہاں تک کہ اللہ راضی ہو جائے۔
پھر اونٹوں کے نام قرعہ نکل آئے تو انہیں ذبح کر دیں۔ عبدالمطلب نے واپس آ کر عبداللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کی مگر قرعہ عبداللہ کے نام نکلا۔ اس کے بعد وہ دس دس اونٹ بڑھاتے گئے اور قرعہ اندازی کرتے گئے مگر قرعہ عبداللہ کے نام ہی نکلتا رہا۔ جب سو (100) اونٹ پورے ہو گئے تو قرعہ اونٹوں کے نام نکلا۔ اب عبدالمطلب نے انہیں عبداللہ کے بدلے ذبح کیا اور وہیں چھوڑ دیا۔
کسی انسان یا درندے کے لیے کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ اس واقعے سے پہلے قریش اور عرب میں خون بہا (دیت) کی مقدار دس اونٹ تھی مگر اس واقعے کے بعد 100 اونٹ کر دی گئی۔ اسلام نے بھی اس مقدار کو برقرار رکھا۔ نبی ﷺ سے آپ کا یہ ارشاد مروی ہے کہ میں دو ذبیح کی اولاد ہوں۔ ایک حضرت اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے آپﷺ کے والد عبداللہ۔
عبدالمطلب نے اپنے صاحبزادے عبداللہ کی شادی کے لیے حضرت آمنہ کا انتخاب کیا جو وہب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلاب کی صاحبزادی تھیں اور نسب اور رتبے کے لحاظ سے قریش کی افضل ترین خاتون شمار ہوتی تھیں۔
ان کے والد نسب اور شرف دونوں حیثیت سے بنو زہرہ کے سردار تھے۔ وہ مکہ ہی میں رخصت ہو کر حضرت عبداللہ کے پاس آئیں مگر تھوڑے عرصے بعد عبداللہ کو عبدالمطلب نے کھجور لانے کے لیے مدینہ بھیجا اور وہ وہیں انتقال کر گئے۔
بعض اہل سیر کہتے ہیں کہ وہ تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے گئے تھے۔ قریش کے ایک قافلے کے ہمراہ واپس آتے ہوئے بیمار ہو کر مدینہ اترے۔
اور وہیں انتقال کر گئے۔ تدفین نابغہ جعدی کے مکان میں ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر پچیس برس کی تھی۔ اکثر مورخین کے بقول ابھی رسول اللہ ﷺ پیدا نہیں ہوئے تھے۔ البتہ بعض اہل سیر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی پیدائش ان کی وفات سے دو ماہ پہلے ہو چکی تھی۔ جب ان کی وفات کی خبر مکہ پہنچی تو حضرت آمنہ نے نہایت درد انگیز مرثیہ کہا جو یہ ہے۔ ترجمہ:
”بطخا کی آغوش ہاشم کے صاحبزادے سے خالی ہو گئی۔
وہ بانگ و خروش کے درمیان ایک لحد میں آسودہ خواب ہو گیا۔ اسے موت نے ایک پکار لگائی اور اس نے لبیک کہہ دیا۔ اب موت نے لوگوں میں ابن ہاشم جیسا کوئی انسان نہیں چھوڑا ( کتنی حسرت ناک تھی) وہ شام جب لوگ انہیں تخت پر اٹھائے لے جا رہے تھے۔ اگر موت اور موت کے حوادث نے ان کا وجود ختم کر دیا ہے (تو ان کے کردار کے نقوش نہیں مٹائے جا سکتے) وہ بڑے داتا اور رحم دل تھے۔“
عبداللہ کا کل ترکہ یہ تھا: پانچ اونٹ، بکریوں کا ایک ریوڑ، ایک حبشی لونڈی، جن کا نام برکت تھا اور کنیت ام ایمن تھی۔ یہی ام ایمن ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو گود کھلایا تھا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu