Open Menu

Al Raheeq Almakhtoom -- Pehli Baiat E Uqba - Article No. 1391

Al Raheeq Almakhtoom -- Pehli Baiat E Uqba

الرحیق المختوم ۔۔۔۔ پہلی بیعت عقبہ - تحریر نمبر 1391

لوگوں نے دیکھتے ہی کہا ہم بخدا کہہ رہے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ جو چہرہ لے کر گئے تھے اس کے بجائے دوسرا ہی چہرہ لے کر پلٹے ہیں

maulana safiur rahman mubarakpuri مولانا صفی الرحمان مبارک پوری ہفتہ 13 جنوری 2018

عقبہ (ع، ق، ب تینوں کو زبر) پہاڑ کی گھاٹی یعنی تنگ پہاڑی گذرگاہ کو کہتے ہیں، مکہ سے منیٰ آتے جاتے ہوئے منیٰ کے مغربی کنارے پر ایک تنگ پہاڑی راستے سے گذرنا پڑتا تھا، یہی گذرگاہ عقبہ کے نام سے مشہور ہے۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جب ایک جمرہ کو کنکری ماری جاتی ہے وہ اس گذرگاہ کے سرے پر واقع ہے اس لئے اسے جمرہ عقبہ کہتے ہیں۔ اس جمرہ کا دوسرا نام جمرة کبریٰ بھی ہے۔

باقی دو جمرے اس سے مشرق میں تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں چونکہ منیٰ کا پورا میدان جہاں حجاج قیام کرتے ہیں ان تینوں جمرات کے مشرق میں ہے اس لیے ساری چہل پہل ادھر ہی رہتی تھی اور کنکریاں مارنے کے بعد اس طرف لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ ختم ہوجاتا تھا۔ اسی لیے نبی ﷺ نے بیعت لینے کے لیے اس گھاٹی کو منتخب کیا اور اسی مناسبت سے اس کو بیعت عقبہ کہتے ہیں، اب پہاڑ کاٹ کر یہاں کشادہ سڑکیں نکال لی گئی ہیں۔

(جاری ہے)


ہم بتا چکے ہیں کہ نبوت کے گیارہوں سال موسم حج میں یثرب کے چھ آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور رسول اللہ ﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ اپنی قوم میں جاکر آپﷺ کی رسالت کی تبلیغ کریں گے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے سال جب موسم حج آیا (یعنی ذی الحجہ 12 نبوی، مطابق جولائی 621ء) تو بارہ آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان میں حضرت جابر بن عبداللہ بن رناب کو چھوڑ کر باقی پانچ ہی تھے جو پچھلے سال بھی آچکے تھے اور ان کے علاوہ سات آدمی نئے تھے جن کے نام یہ ہیں:


معاذ بن الحارث، ابن عفرا: قبیلہ بنی النجار (خزرج)
2۔ ذکوان بن عبدالقیس: بنی زریق (خزرج)
3۔ عبادہ بن صامت: بنی غنم (خزرج)
4۔ یزید بن ثعلبہ: بنی غنم کے حلیف (خزرج)
5۔ عباس بن عبادہ بن نضلہ: قبیلہ بن سالم (خزرج)
6۔ ابوالہیثم بن التیہان: بن عبدالاشہل (اوس)
7۔ عویم بن ساعدہ: بنی عمرو بن عوف (اوس)
ان میں صرف اخیر کے دو آدمی قبیلہ اوس سے تھے بقیہ سب کے سب قبیلہ خزرج سے تھے۔
ان لوگوں نے رسول اللہﷺ سے منیٰ میں عقبہ کے پاس ملاقات کی اور آپﷺ سے چند باتوں پر بیعت کی، یہ باتیں وہی تھی جن پر آئندہ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ کے وقت عورتوں سے بیعت لی گئی۔
عقبہ کیا اس بیعت کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آپ! مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے، اپنے ہاتھ پاوٴں کے درمیان سے گھڑ کر کوئی بہتان نہ لاوٴ گے اور کسی بھی بات میں میری نافرمانی نہ کرو گے۔
جو شخص یہ ساری باتیں پوری کرے گا اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا پھر اسے دنیا ہی میں اس کی سزا دے دی جائے گی تو یہ اس کے لیے کفارہ ہوگی اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا پھر اللہ اس پر پردہ ڈال دے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، چاہے گا تو سزا دے گا اور چاہے گا تو معاف کردے گا۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس پر آپ ﷺ سے بیعت کی۔
مدینہ میں اسلام کا سفیر
بیعت پوری ہوگئی اور حج ختم ہوگیا تو نبیﷺ نے ان لوگوں کے ہمراہ یثرب میں اپنا پہلا سفیر بھیجا تاکہ وہ مسلمانوں کو اسلامی احکام کی تعلیم دے اور انہیں دین کے دروبست سکھائے اور جو لوگ اب تک شرک پر چلے آرہے ہیں ان میں اسلام کی اشاعت کرے۔
نبیﷺ نے اس سفارت کے لیے سابقین اولین میں سے ایک جوان کا انتخاب فرمایا جس کا نام نامی اور اسم گرامی مصعب بن عمیر عبدری رضی اللہ عنہ ہے۔
قابل رشک کامیابی
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے تو حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے گھر نزول فرما ہوئے۔ پھر دونوں نے مل کر اہل یثرب میں جوش و خروش سے اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔
حضرت مصعب مقری کے خطاب سے مشہور ہوئے، (مقری کے معنی ہیں پڑھانے والا۔ اس وقت معلم اور استاد کو مصری کہتے تھے۔)
تبلیغ کے سلسلے میں ان کی کامیابی کا ایک نہایت شاندار واقعہ یہ ہے کہ ایک روز حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ انہیں ہمراہ لے کر بنی عبدالاشہل اور بنی ظفر کے محلے میں تشریف لے گئے اور وہاں بنی ظفر کے ایک باغ کے اندر مرق نامی ایک کنویں پر بیٹھ گئے، ان کے پاس چند مسلمان بھی جمع ہوگئے، اُس وقت تک بنی عبدالاشہل کے دونوں سردار یعنی حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر مسلمان نہیں ہوئے تھے بلکہ شرک ہی پر تھے۔
انہیں جب خبر ہوئی تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت اسید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ذرا جاوٴ اور ان دونوں کو جو ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بنانے آئے ہیں، ڈانٹ دو اور ہمارے محلے میں آنے سے منع کر دو۔ چونکہ اسعد بن زاررہ میری خالہ کا لڑکا ہے اس لیے تمہیں بھیج رہا ہوں ورنہ یہ کام میں خود ہی انجام دے دیتا۔
اُسید نے اپنا حربہ اٹھایا اور ان دونوں کے پاس پہنچے۔
حضرت اسعد رضی اللہ عنہ نے انہیں آتا دیکھ کر حضرت مصعب رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ اپنی قوم کا سردار تمہارے پاس آرہا ہے، اس کے بارے میں اللہ سے سچائی اختیار کرنا۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر یہ بیٹھا تو اس سے بات کروں گا۔ اسید پہنچے تو ان کے پاس کھڑے ہوکر سخت سست کہنے لگے۔ بولے: تم دونوں ہمارے یہاں کیوں آئے ہو؟ ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بناتے ہو؟ یاد رکھو اگر تمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو ہم سے الگ ہی رہو۔
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں نہ آپ بیٹھیں اور کچھ سنیں، اگر کوئی بات پسند آجائے تو قبول کر لیں، پسند نہ آئے تو چھوڑ دیں۔ حضرت اسید نے کہا: بات منصفانہ کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد اپنا حربہ گاڑ کر بیٹھ گئے۔ اب حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے اسلام کی بات شروع کی اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ ان کا بیان ہے کہ بخدا ہم نے حضرت اسید کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگا لیا۔
اس کے بعد انہوں نے زبان کھولی تو فرمایا: یہ تو بڑی ہی عمدہ اور بہت ہی خوب تر ہے۔ تم لوگ کسی کو اس دین میں داخل کرنا چاہتے ہو تو کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا آپ غسل کر لیں، کپڑے پاک کر لیں، پھر حق کی شہادت دیں، پھر دو رکعت نماز پڑھیں۔ انہوں نے اٹھ کر غسل کیا یا کپڑے پاک کئے، کلمہ شہادت ادا کیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر بولے میرے پیچھے ایک اور شخص ہے، اگر وہ تمہارا پیروکار بن جائے تو اس کی قوم کا کوئی آدمی پیچھے نہ رہے گا اور میں اس کو ابھی تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔
(اشارہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف تھا) اس کے بعد حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے اپنا حربہ اٹھایا اور پلٹ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے، وہ اپنی قوم کے ساتھ محفل میں تشریف فرما تھے (حضرت اسید رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر) بولے میں بخدا کہہ رہا ہوں کہ یہ شخص تمہارے پاس جو چہرہ لے کر آرہا ہے یہ وہ چہرہ نہیں ہے جسے لے کر گیا تھا۔ پھر جب اسید رضی اللہ عنہ محفل کے پاس آن کھڑے ہوئے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا میں نے ان دونوں سے بات کی تو واللہ مجھے کوئی حرج تو نظر نہیں آیا۔
ویسے میں نے انہیں منع کر دیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ ہم وہی کریں گے جو آپ چاہیں گے۔
اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنی حارثہ کے لوگ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے گئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اسعد رضی اللہ عنہ آپ کی خالہ کا لڑکا ہے لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ آپ کا عہد توڑ دیں۔ یہ سن کر سعد غصے سے بھڑک آٹھے اور اپنا نیزہ لے کر سیدھے ان دونوں کے پاس پہنچے۔
دیکھا تو دونوں اطمینان سے بیٹھے ہیں، سمجھ گئے کہ اسید کا منشا یہ تھا کہ آپ بھی ان کی باتیں سنیں لیکن یہ ان کے پاس پہنچے تو کھڑے ہوکر سخت سست کہنے لگے۔ پھر اسعد بن زرارہ کو مخاطب کرکے بولے: خدا کی قسم اے ابو اجامہ! اگر میرے اور تیرے درمیان قرابت کا معاملہ نہ ہوتا تو تم مجھ سے اس کی امید نہ رکھ سکتے تھے، ہمارے محلے میں آکر ایسی حرکتیں کرتے ہو جو ہمیں گوارا نہیں۔

ادھر حضرت اسعد رضی اللہ عنہ نے حضرت مصعب رضی اللہ عنہ سے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ بخدا تمہارے پاس ایک ایسا سردار آرہا ہے جس کے پیچھے اس کی پوری قوم ہے، اگر اس نے تمہاری بات مان لی تو پھر ان میں سے کوئی بھی نہ پچھڑے گا۔ اس لیے حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد سے کہا: کیوں نہ آپ تشریف رکھیں اور سنیں، اگر کوئی بات پسند آگئی تو قبول کرلیں اور اگر پسند نہ آئی تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات کو آپ سے دور ہی رکھیں گے۔
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے ان پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت کی۔ ان کا بیان ہے کہ ہمیں حضرت سعد کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتا لگ گیا، اس کے بعد انہوں نے زبان کھولی اور فرمایا تم لوگ اسلام لاتے ہو تو کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا آپ غسل کرلیں، کپڑے پاک کرلیں پھر حق کی شہادت دیں، پھر دو رکعت نماز پڑھیں۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد اپنا نیزہ اٹھایا اور اپنی قوم کی محفل میں تشریف لائے، لوگوں نے دیکھتے ہی کہا ہم بخدا کہہ رہے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ جو چہرہ لے کر گئے تھے اس کے بجائے دوسرا ہی چہرہ لے کر پلٹے ہیں، پھر جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ اہل مجلس کے پاس آکر رکے تو بولے اے بنی عبدالاشہل! تم لوگ اپنے اندر میرا معاملہ کیسا جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ ہمارے سردار ہیں، سب سے اچھی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں اور ہمارے سب سے بابرکت پاسبان ہیں۔
انہوں نے کہا: اچھا تو سنو، اب تمہارے مردوں اور عورتوں سے میری بات چیت حرام ہے جب تک کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لاوٴ۔ ان کی اس بات کا یہ اثر ہوا کہ شام ہوتے ہوتے اس قبیلے کا کوئی بھی مرد اور کوئی بھی عورت ایسی نہ بچی جو مسلمان نہ ہو گئی ہو۔ صرف ایک آدمی، جس کا نام اْصیرم تھا، اس کا اسلام جنگ احد تک موخر ہوا۔ پھر احد کے دن اس نے اسلام قبول کیا اور جنگ میں لڑتا ہوا کام آگیا، اس نے ابھی اللہ کے لیے ایک سجدہ بھی نہ کیا تھا۔
نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس نے تھوڑا عمل کیا اور زیادہ اجر پایا۔
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ، حضرت اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ ہی کے گھر مقیم رہ کر اسلام کی تبلیغ کرتے رہے یہاں تک کہ انصار کا کوئی گھرانہ باقی نہ بچا جس میں چند مرد اور عورتیں مسلمان نہ ہو چکی ہوں۔ صرف بنی امیہ بن زید اور خطمہ اور وائل کے مکانات باقی رہ گئے تھے۔ مشہور شاعر قیس بن اسلت انہیں کا آدمی تھا اور یہ لوگ اسی کی بات مانتے تھے۔
اس شاعر نے انہیں جنگ خندق (5 ہجری) تک اسلام سے روکے رکھا، بہرحال اگلے موسم حج یعنی تیرہویں سال نبوت کا موسم حج آنے سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کامیابی کی بشارتیں لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مکہ تشریف لائے اور آپ ﷺ کو قبائل یثرب کے حالات، ان کی جنگی اور دفاعی صلاحیتوں اور خیر کی لیاقتوں کی تفصیلات سنائیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu