Corrector Ki Qemat - Article No. 2229

Corrector Ki Qemat

کریکٹر کی قیمت! - تحریر نمبر 2229

کل کی غیر منصفانہ بارش کے دوران ایک قلندر کی بات ہمیں پانی پانی کر گئی اس بارش کو ہم نے غیر منصفانہ اس لیے کہا کہ یہ کہیں ہوئی اور کہیں نہیں ہوئی۔

پیر 14 مئی 2018

کل کی غیر منصفانہ بارش کے دوران ایک قلندر کی بات ہمیں پانی پانی کر گئی اس بارش کو ہم نے غیر منصفانہ اس لیے کہا کہ یہ کہیں ہوئی اور کہیں نہیں ہوئی۔ اور ایک قلندر کی بات نے ہمیں پانی پانی یوں کیا کہ سڑک کے بیچوں بیچ بہتے ہوئے ایک دریا کو موٹر سائیکل سے عبور کرنے کے دوران راہ چلتے اس مرد قلندر سے ہم یونہی پوچھ بیٹھے کہ حضرت اس سڑک کے کون سے حصے میں پانی کم گہرا ہے تاکہ ہم عین منجھدھار میںچلنے کے بجائے اسی راہگذر کو اپنائیں۔

اس پر اس مرد قلندر نے ہمیں اس سمت چلنے سے منع کیا، جس سمت ہم جا رہے تھے کہ بقول ان کے اس طرف پانی گہرا تھا اور فرمایا کہ بائیں جانب فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ چلیں سو ہم نے ان کے اس مشورے کو پلے باندھا اور ابھی چند قدم ہی گئے تھے کہ موٹر سائیکل ایک گڑھے میں گر کر یوگا کے انداز میں سر نیچے اور ٹانگیں اوپر کر کے کھڑا ہو گیا اور یوں اس مرد قلندر کی بات ہمیں واقعی پانی پانی کر گئی ۔

(جاری ہے)

نہ صرف پانی پانی کر گئی بلکہ”توجھکا جب غیر کے آگے نہ تن میرا نہ من“ کی تفسیر بھی تسلی بخش طور پر سمجھا گئی۔کیونکہ اس عمل کے دوران نہ صرف یہ کہ ہم سچ مچ پانی پانی ہو گئے بلکہ اس اجنبی گڑھے کے سامنے” جھکنے“ کے باعث تھوڑی دیر کے لئے ہمیں پاو¿ں من من کے لگے۔ اس ناپسندیدہ ورزش سے فراغت کے بعد ہم نے مڑکر دیکھا تو یہ مرد قلندر کھڑا دانت نکال رہا تھا تب ہم پر یہ بھید کھلا کہ یہ شخص مرد قلندر ذرا مخو لیا ہے، اور مخولیوں کی وجہ سے لاہور والے ” زندہ دلان لاہور“ کہلاتے ہیں۔

لیکن جو سچ پوچھو تو صرف ان مخولیوں ہی کی وجہ سے لاہور کے شہری زندہ دلان لاہور نہیں کہلاتے بلکہ یہ شہر اپنی روح میں خود بھی خاصا مخولیا واقع ہوا ہے۔ چنانچہ حق تو یہ ہے کہ اس شہر کو زندہ دل لاہور اور اس کے شہریوں کو زندہ دلان لاہور کہا جائے تو تکڑی کے دونوں پلے تب برابر ہوتے ہیں۔ اس مخولئے شہر کے صرف شہریوں کو زندہ دل کہنا ڈنڈی مارنے کے مترادف ہے۔
مثلاََ یہ شہر سب سے بڑا مخول تو یہ کرتا ہے کہ خو د کو ”عروس البلاد“ یعنی شہروں کی دلہن کہلاتا ہے اور اس دلہن کا یہ عالم ہے کہ اس کا دامن جگہ جگہ سے تار تار ہے“ اس سڑکوں میں گڑھے پڑے ہوئے ہیں، اس کے نلکوں میں پانی نہیں آتا، اس کی بجلی کبھی آتی ہے اور کبھی چلی جاتی ہے، سیوریج اس کا ٹھیک نہیں ہے اوپر سے سوئی گیس اور ٹیلی فون والے جوآئے روز پھاوڑے اور کدالیں لے کر اس کے ”دوالے“ ہو جاتے ہیں۔
بس یوں سمجھیں کہ یہ دلہن گنٹھیا، کالی کھانسی، آشوب چشم و دیگر امراض میںمبتلا ہے لیکن چونکہ ذرا مخولیا واقع ہوئی ہے اس لیے عروس البلاد کہلاتی ہے۔مگر دوستو! یہ سطور لکھتے ہوئے ہمیں اچانک خیال آیا کہ ہم اس عروس البلاد سے کچھ زیادتی کر گئے ہیں کیوں کہ دلہن اگر بیمار شمار رہتی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی قدروقیمت سے انکار کر دیا جائے کہ اصل چیز تو کریکٹر ہے۔
اس کی وضاحت کچھ اس لطیفے سے ہو گئی جس کے مطابق ایک شخص بھینس خریدنے کے لیے بازار گیا، بیوپاری نے اسے ایک بھینس دکھائی اور کہا یہ روزانہ بیس سیر دودھ اور سال میں ایک کٹا دیتی ہے اس کی قیمت دس ہزار روپے ہے۔ پھر اس نے دوسری بھینس دکھائی اور کہا یہ دودھ دیتی ہے اور نہ”کٹا“ دیتی ہے اس کی قیمت بیس ہزار روپے ہے۔ یہ سن کر گاہک پریشان ہوا اور متجس ہوا کہ معاملہ کیا ہے چنانچہ اس نے خیرت بھرے لہجے میں بیوپاری سے پاچھا”بھائی صاحب یہ کیا معاملہ ہے کہ جو بھینس روزانہ بیس سیر دودھ اور سال میں ایک کٹا دیتی ہے، اس کی قیمت دس ہزار روپے ہے۔
اور جو نہ دودھ دیت ہے نہ کٹا دیتی ہے اس کی قیمت بیس ہزار روپے ہے؟“ یہ سن کر بیوپاری نے گاہک کی سوچ یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا” صاحب بہت افسوس کی بات ہے ، آپ کی نظروں میں کریکٹر کی کوئی قیمت ہی نہیں؟“ سو معاملہ یوں ہے کہ عروس البلاد لاہور کی قدوقیمت بھی اس کے کریکٹر ہی کی وجہ سے ہے یوں اس کی ذات سے وابستہ جن تلخیوں کا ذکر ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے ، انہیں فراموش ہی کر دینا چاہیے کہ اس کے بعد یہ سب چیزیں فروضی ہو کر رہ جاتی ہیں۔

Browse More Urdu Adab