Talash E Gumshuda - Article No. 2127

Talash E Gumshuda

تلاش گمشدہ - تحریر نمبر 2127

ایک روز ایک مُنہ بولی شاعرہ بھی ہمارے در پَے آزار ہوگئیں کہ ناچیز کی تازہ غزل سُنئے۔ غزل سُن کر ہمیں تو کچھ کچھ شک ہونے لگا کہ یہ اپنی غزلیں بھی ناچیز ہی سے لکھواتی ہیں کیونکہ ایسی گھٹیا غزلیں یہ خود لکھ ہی نہیں سکتیں۔

ہفتہ 16 ستمبر 2017

تحریر: رحمان فارس
صاحبو ! تین عدد شاعر کھو گئے ہیں۔ بہت ڈُھونڈا۔ ہر کسی سے پوچھا۔ کوئی کھوئے ہوؤں کی خبر نہیں دیتا مگر جس سے ملیے، لگاتار اُنہی کے اشعار سُنائے چلا جارہا ہے۔ یہ تین شاعر ناچیز، فدوی اور احقر تخلص کرتے ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک محفلِ ہاؤ ہو میں ایک مُنحنی سے صاحب ملے۔ چُھوٹتے ہی بولے: "ناچیز کا شعر سُنیے۔

تعارف میں مدد دے گا"۔ اُس کے بعد اُنہوں نے ایک عدد گھٹیا شعر سُنایا جو وزن اور اخلاق دونوں سے گرا ہوا تھا۔ ہماری آنکھوں میں بےاختیار آجانے والی ناپسندیدگی کو داد سمجھ کر چہکنے لگے: "ہوگئے نا گھائل، صاحب! یہ تو ابھی ایک شعر سُنایا ہے، ناچیز کی پٹاری میں ایسے ہزاروں شعر کُلبلا رہے ہیں"۔ پھر اُنہوں نے "ناچیز" ہی کی تین غزلیں دن دہاڑے کمال دیدہ دلیری سے دندناتے ہوئے سُنائیں اور اُسی لمحے سے ہم حضرتِ ناچیز کی تلاش میں ہیں۔

(جاری ہے)

ذرا ملیں تو سہی!
پچھلے اتوار کا ذکر ہے، ہم لاہور کے ایک چائے خانہ میں کڑک چائے کی چسکیلی چُسکیاں لیتے ہوئے، اخبار کا رنگین فلمی صفحہ تھامے زیاراتِ مقدسہ میں مگن تھے کہ کسی نے کاندھے پر درشتی سے ہاتھ دھرا۔ دیکھا تو ایک ادبی جریدے کے خرانٹ مُدیر موصوف بنفسِ خبیث موجود تھے۔ خود کو پانی پت کا بتاتے ہیں۔ حالانکہ پیچھے سے پتوکی کے ہیں۔
ہمارے سر پر ایک مُربیانہ سرزنش بھری چپت رسید کرکے اُنہوں نے زیارات والا صفحہ ہم سے چھینا، کرسی پر براجمان ہوئے اور ٹانگ پر ٹانگ دھر کر بولے: "بھئی برخوردار ! آج تو چائے کا بل تُم دو گے"۔
چائے اور جُملہ لوازمات آرڈر کر چکے تو اُن کی نظر فلمی صفحے پر چھپے مقاماتِ مقدسہ پر پڑی۔ کِھل اُٹھے۔ آنکھوں میں شیطنیت بھر کر بولے: "میاں صاحبزادے ! نسوانی خدوخال اور نسائی پیکر کے نشیب و فراز فدوی کا پسندیدہ موضوع ہے۔
جب تک چائے آتی ہے، اس موضوع پر فدوی کے شعر سُنو، خُدئی قُسم ! مزہ نہ آیا تو چائے کے پیسے واپس"
اور پھر چائے آنے اور چائے پی چُکنے تک اُنہوں نے "فدوی" کے بیسیوں ناقابلِ اشاعت، ناقابلِ بیان اور ناقابلِ سماعت اشعار ہماری سماعتوں میں اُنڈیلے۔ فدوی صاحب کے کُچھ اشعار تو واقعی ایسے تھے کہ انہیں (فدوی سمیت) چُمٹے سے پکڑ کر گھر سے کوسوں دور پھینک آیا جائے اور پھر چُمٹا بھی بھسم کردیا جائے مبادا جراثیم پھیلیں۔

شعر سُنانے کے ساتھ ساتھ وہ بسکٹ کھا رہے تھے اور ہم پیچ و تاب کھاتے سوچ رہے تھے کہ "یہ کم بخت فدوی ہے کون؟ کسی مُشاعرے میں تو کبھی مُلاقات نہیں ہوئی"۔
آخر ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ "صاحب ! یہ فدوی بھی پانی پت ہی کے معلوم ہوتے ہیں۔ دوست ہیں کیا آپ کے؟"۔
وہ دن اور آج کا دن، وہ صاحب ایسے ناراض ہوئے کہ بقول یوسفی "ہمارے لطیفوں تک پہ ہنسنا چھوڑ دیا"۔
اور ہم گلیوں گلیوں اُس کم بخت فدوی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔
ڈھونڈو گے اگر مُلکوں مُلکوں، ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم!
اور تو اور، ایک روز ایک مُنہ بولی شاعرہ بھی ہمارے در پَے آزار ہوگئیں کہ ناچیز کی تازہ غزل سُنئے۔ غزل سُن کر ہمیں تو کچھ کچھ شک ہونے لگا کہ یہ اپنی غزلیں بھی ناچیز ہی سے لکھواتی ہیں کیونکہ ایسی گھٹیا غزلیں یہ خود لکھ ہی نہیں سکتیں۔

ایسے ہی ایک گُمشدہ شاعر احقر صاحب ہیں۔ جسے دیکھو، اُنہی کے شعر سُنائے چلا جا رہا ہے۔
"اجی صاحب! کلامِ احقر مُلاحظہ ہو"
"فارس میاں! احقر کی تازہ غزل سُنو۔ کیا یاد کرو گے"
"احقر نے اسی موضوع کو کچھ یُوں بیان کیا ہے"
بس بس بس !!!!
صاحبو، دوستو، عزیزو، شاعرو، نثرنگارو! ہماری آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ جس کسی کو ناچیز، فدوی یا احقر نامی شاعروں میں سے کسی کا بھی اتہ پتہ معلوم ہو، ترُنت ہمیں بتائے کیونکہ ہم نے اپنے حال کی دُہائی دے کر کچھ مُعزّز جج صاحبان سے تین قتل مُعاف کروالیے ہیں.

Browse More Urdu Columns