Aarbab E Ikhtiyar Ki Nazroon Se Ojhaal Intehai Eheem Masla - Article No. 2005

Aarbab E Ikhtiyar Ki Nazroon Se Ojhaal Intehai Eheem Masla

”اربابِ اختیار کی نظروں سے اوجھل - انتہائی اہم مسئلہ“ - تحریر نمبر 2005

۔ ہم اپنے بہت سے راز چھپا چھپا کر رکھتے ہیں مگر ہمارے سیاستدان ہر چیز بیچ چوک افشاء کر دیتے ہیں۔ عمران خان کے بقول ہمارے نوے (90) فیصد سے زیادہ سیاستدان چور ہیں۔ اگر میری بات بُری لگے تو اُن کی تقریروں کے البم نکال کر سنیں

جمعرات 20 نومبر 2014

ہم اُس شہر کے رہنے والے ہیں جہاں باتھ روم کے باہڑ بڑے بڑے تالے لگائے جاتے ہیں حالانکہ وہاں کوئی قابل ذکر یا چوری کر لینے والی قیمتی چیز نہیں ہوتی۔ ہم اپنے بہت سے راز چھپا چھپا کر رکھتے ہیں مگر ہمارے سیاستدان ہر چیز بیچ چوک افشاء کر دیتے ہیں۔ عمران خان کے بقول ہمارے نوے (90) فیصد سے زیادہ سیاستدان چور ہیں۔ اگر میری بات بُری لگے تو اُن کی تقریروں کے البم نکال کر سنیں (ویسے اُن کے یہ مشہور زمانہ البم دیکھنے کے قابل بھی ہیں) اُنہوں نے نام لے لے کر بتایا ہے کہ کون کتنا بڑا چور ہے- اُدھر حنیف عباسی، پنڈی والے بھی عجیب طرح کی باتیں کر رہے ہیں جن میں چرس اور کوکین کا ذکر بھی آتا ہے۔
۔۔؟ اللہ باقی سیاستدانوں کو بھی توفیق عطا کرے کہ وہ بھی ”سر عام“ سچ بولیں اور عوام سے ”داد“ وصول کریں۔

(جاری ہے)

استاد کمر کمانی فرماتے ہیں کہ وہ ایک دوست سے ملنے گئے دوست کے باتھ روم میں جانے کا اتفاق ہوا تو بھول گئے کہ کس کام سے آئے تھے۔ کافی وقت ادھر اُدھر گھومتے گزر گیا- اکبر بادشاہ یاد آ گیا- اُس نے لاہور کے شاہی قلعہ میں ایک کنال اراضی پر باتھ روم بنوایا تھا۔

ابھی تک مورخین یہ مسئلہ حل نہیں کر پائے کہ ہمایوں بادشاہ سیڑھیوں سے گر کر مرا تھا یا باتھ روم سے پھسل کر؟ یہ طے ہو نہ ہو مگر یہ سچ چھپایا نہیں جا سکتا کہ ہمایوں بادشاہ کی موت بہر حال کسی بے ہودہ طریقے سے ہی ہوئی تھی اور اس کا مرنا بھی مذاق کا باعث بنا۔ اور ساری زندگی بھی مغلیہ سلطنت کا یہ ”چراغ“ جیتے جی گُل ہی رہا- سست کہیں کا؟ استاد کمر کمانی کہتا ہے کہ کچھ باتھ روم تو ایسے کشادہ ہوتے ہیں کہ وہاں سو جانے کو دل چاہتا ہے۔
دیواروں پر بچوں کی طرح کارٹون بنانے اور انجوائے کرنے کو بھی دل کرتا ہے۔ اس حوالے سے روائتی باتیں زبان زد عام ہیں کالجوں کے باتھ رومز میں استاد امام دین گجراتی کی شاعری تو بہت زیادہ پڑھنے کو ملتی ہے۔ موجودہ دور کے وہ کارٹون بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جن کے ساتھ یہ فقرہ لکھنے کی بھی ہدایت دی جاتی ہے - ”صرف بالغوں کے لئے“۔ کمپیوٹر نے بلاشبہ نئی نسل کی آنکھیں کھول دی ہیں۔
پوری دنیا سمٹ کر نوجونواں کے سامنے آ چکی ہے اور نوجوان اس شیشے کے سامنے آتے ہوئے شرماتے ہیں اور اس کی جان بھی نہیں چھوڑتے۔ بقول ذال سعدی#
ظالم کی یہ ادا بھی تو مشہور بہت ہے
اپنی وہ عاجزی پر بھی، مغرور بہت ہے
اس حوالے سے ماڈرن سوسائٹی میں اب دو واضح گروپس سامنے آ چکے ہیں اور یہ بحث اعلیٰ سطح کے دانشوروں کے ہاتھوں میں بھی پہنچ چکی ہیں کہ آج کل ”مرد عورت“ کس عمر میں بالغ ہو چکے ہوتے ہیں۔
ویسے اُن کی حرکتوں سے اندازہ لگایا جائے یا والدین کے آ جانے پر اچانک کمپیوٹر ”آف“ کر دینے سے آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ پرائمری کا بچہ بھی بالغ ہو جانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اندر کی کیفیت تو اللہ ہی جانتا ہے یا ”کم عمر بالغ” کافی عرصہ ہو گیا میں نے سنیما نہیں دیکھا۔ اُمید ہے کہ آجکل فلمی پوسٹروں پر یہ نہیں لکھا جاتا ہو گا ”صرف بالغوں کے لئے“۔

پچھلے دنوں شعراء کی محفل میں میں نے موضوعات ختم ہو جانے پر اک نیا موضوع اُچھالا کہ باتھ روم میں پائی جانے والی سب سے اہم چیز کون سی ہوتی ہے۔ پرانی طرز کے سنےئر شعراء نے ”لوٹا“ ایسی پراڈکٹ بتائی کہ جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ جدید دور کے ”بالغوں“ نے کچھ بے ہودہ باتیں بیان کیں۔ جن پر میں کم از کم آپ کے ساتھ اسی حوالے سے گفتگو کرنے سے قاصر ہوں (جیسا کہ شیخ رشید نے ایک جلسے میں جلاؤ گھیراؤ، مارو مر جاؤ تک کہ ڈالا اور قوم خاموش ہے)۔
آپ رات سونے سے پہلے جوابات پر غور کر لیجئے گا۔ اگر بات سمجھ آ جائے تو ٹھیک ورنہ ---- چپکے سے سو جائیے گا کہ ---- کچھ باتوں پر خاموشی ہی بہتر ہوتی ہے۔ یا پھر ---- کمپیوٹر کھول کر ”گوگل“ سے مدد طلب کریں کہ جدید دور میں وہ کام ”گوگل“ اور ”یاہو“ کر رہے ہیں جو پچھلے زمانے میں ”اباّ جی“ کیا کرتے تھے۔ نہ لوگ ہمارے دور میں ”اباّ جی“ کی سنتے تھے نہ ہی آج کے دور میں ”گوگل“ یا ”یاہو“ کی؟ اللہ ”اباّ جی“ سے چھتر سے ”ڈائریکٹ“ پڑتے اور کمپیوٹر باتوں باتوں میں ”شرمندگی“ کا احساس دلاتا ہے۔

دردِ دل رکھنے والے شہری کی حیثیت سے ---- میری حکومت وقت سے درخواست ہے کہ وہ اسکولوں کالجوں کے ”سفیدی“ کے بجٹ میں مزید اضافہ کریں اور پرنسپل صاحبان کو ہدایات بھی جاری کریں کہ اسکولوں کالجوں کے باتھ روموں میں طلبہ جو ”گند“ مچاتے ہیں اور پوری ڈھٹائی سے مچاتے ہیں وہ بار بار انتظامیہ خود صاف کرواتی رہے سرکاری خرچ پر (جیسا کہ پنجاب گورنمنٹ، لاہور کی دیواروں پر کی گئی ”وال چاکنگ“ پر خود سفیدی پھروا رہی ہے کہ P.T.I والے جگہ جگہ ”گو نواز گو“ لکھنے سے باز جو نہیں آتے)۔
میں نے یہاں یونیورسٹیوں کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ وہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ---- اور میں اتنی بڑی ذمہ داری اپنے ناتواں کندھوں پر اکیلا اٹھانے سے قاصر ہوں۔ ”سوشل میڈیا“ میرے ساتھ تعاؤن کرنے کا وعدہ کرے تو میں اس کام کا بیڑہ بھی اٹھا لینے کا سوچ سکتا ہوں ---- کہ میں اِک صفائی پسند شہری ہوں۔
افسوس کہ میں نے آج آپ کے ساتھ باتھ روم، لوٹا، گندگی، ذہنی پسماندگی جیسے نہایت ”اہم“ موضوعات پر بات کی جس پر میں شرمندہ نہیں ہوں کیونکہ جو کچھ ہم الیکٹرنک میڈیا (سیاسی رپورٹس) پر دیکھتے ہیں وہی ہمیں خوابوں میں بھی دکھتا ہے اور وہی ہماری گفتگو میں چل رہا ہوتا ہے اور وہی ہمارے عمل سے بھی دکھائی دیتا ہے۔
#
اُس کا چہرہ دیکھ کے گھبرا گئے
ٹھگ دیکھا---- ٹھگ بن جانا پڑا

Browse More Urdu Mazameen