Aik Ghalti Ka Irtikaab - Article No. 2216

Aik Ghalti Ka Irtikaab

ایک غلطی کا ارتکاب! - تحریر نمبر 2216

جب کوئی بڑے ثقہ قسم کے بزرگ ہمارے امریکہ یاترا سے آگاہی کی صورت میں بظاہر یہ معصوم سا سوال پوچھتے ہیں کہ حضرت سنا ہے وہاں اخلاق کی دھجیاں روز روشن میں بکھیری جاتی ہیں کیا درست ہے ؟

بدھ 18 اپریل 2018

ہم نہ خودرو اذیت میں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو اذیت میں مبتلا کر کے خوش ہوتے ہیں مگر خدا جانے اس وقت ہمیں کیا ہوتا ہے جب کوئی بڑے ثقہ قسم کے بزرگ ہمارے امریکہ یاترا سے آگاہی کی صورت میں بظاہر یہ معصوم سا سوال پوچھتے ہیں کہ حضرت سنا ہے وہاں اخلاق کی دھجیاں روز روشن میں بکھیری جاتی ہیں کیا درست ہے ؟تو ہم صرف ہاں میں جواب د ے کر بات کا رخ دوسری جانب پھیر دیتے ہیں۔
کچھ دیر بعد وہ پھر اسی جانب لوٹ آتے ہیں بھی سنا ہے کہ وہاں لڑکیاں ایسا لباس پہنتی ہیں کہ شرافت اپنا منہ پیٹ کر رہ جاتی ہے۔ سمجھنے کوتو ہم شروع ہی میں سمجھ گئے تھے جو وہ سننا چاہتے ہیں مگر ایک بار پھر تجاہل عارفاہ سے کام لیتے ہوئے ”آپ نے یہ صحیح سنا “کہہ کر بات کا رخ کسی اور طرف موڑ دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس پر وہ بزرگ بے چینی سے کروٹ لیتے ہیں ہمت نہیں ہارتے اور سہ بارہ کہتے ہیں پڑھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ وہاں کی دوشیزاوٴں کے نزدیک شرم وحیا باعصمت نام کی کوئی چیز نہیں۔

چنانچہ وہ لوگ خوب کھل کھیلتے ہیں۔ ہم دل ہی دل میں مسکراتے ہیں مگر ان کے چاہنے کے با و جو کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس سے وہ حظ اٹھا سکیں اور یوں ان کی بناوٹی ”ثقیت“ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک بار پھر جی ہاں بالکل ایسے ہی ہوتا ہے کہہ کر ہونٹ سی لیتے ہیں۔ اب وہ صاحب پھٹنے کے قریب ہو جاتے ہیں اور اپنی بلیک اینڈ وائیٹ مونچھوں پرانگشت شہادت پھیرتے ہوئے کہتے ہیں مگر یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے یعنی۔
۔۔ یعنی۔۔ صاحب ذرا تفصیل سے بتایئے نا ۔۔۔!یہ سب کچھ تفصیل سے سننے کے بعد ایک سوال اور پوچھا جاتا ہے یعنی یہ کہ” آخرآپ کو واپس آنے کی ضرورت کیاتھی؟“گویا ہمارا وجود اس دھرتی پر بوجھ کی حیثیت رکھتا ہے اور ہم ان نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں تاہم انہیں بتاتے ہیں کہ ”گو ہمارے پاس وہاں آٹو میٹک پاور‘ سٹیرنگ‘ پاور بر یک ‘ائیرکنڈیشنڈا مپالاگاڑی تھی۔
سینٹرل ہیٹڈ اور ائیر کنڈیشنڈ اپارٹمنٹ تھا جووال ٹو دال کا رپیٹڈ تھا اور جس میں کلر ٹیلی وژن سٹیریو ٹیلی فون ریفریجریٹر نہانے کا تالاب اور تالاب کی زینت کا سبھی سامان موجود تھا مگر یہ سب کچھ ٹام ‘ڈک اورہیری کے پاس بھی تھا۔ ہماری انا کو آخرکس طرف سے تسکین پہنچتی ؟ اس کے برعکس دیکھئے ہم نے یہاں گو قسطوں میں ایک سکوٹر خریدا ہے مگر صبح کس شان سے اس پر سوار ہوتے ہیں اور دفتر تک پہنچتے پہنچتے کتنے ہی پیدل اور سائیکل سواروں کو میلوں پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اس طرح وہاں کام پر عام لوگوں کی طرح ہم بھی ہیمبرگرہیں کھاتے تھے جبکہ یہاں بھی ایسا کرتے ہیں تو طبقہ امراء میں شمار ہونے لگتے ہیں۔
وہاں ایک عام امریکی کی طرح گھر میں جھاڑو لگاتے تھے کھانا پکاتے اور برتن مانجھتے تھے کپڑے دھوتے تھے اور ان کا گھاس کاٹتے تھے اور یہ سب کچھ کرنے کے علاوہ آٹھ گھنٹے دفتر میں کام بھی کرتے تھے جبکہ یہاں گھنٹوں تصر جاناں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔وہ صاحب ہماری یہ باتیں پورے غور سے سنتے ہیں اور آخر میں یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں مگر صاحب! آپ کو واپس آنے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ فقرہ میں اتنی بارسنناپڑا ہے کہ ہم خودسوچ میں پڑ گئے ہیں اور ان دنوں سنجیدگی سے اس امر پرغور وخوض کر رہے ہیں کہ آیا واقعی ہمیں واپس آنے کی ضرورت نہیں تھی یہ بات ہم ان لمحوں میں خصوصا زیادہ سوچتے ہیں جب سودا لینے کے لئے خود بازار جانا پڑتاہے اور وہاں پہنچتے ہی آ ٹے دال کا بھا و معلوم ہو جاتا ہے صرف آٹے دال ہی کا نہیں بلکہ پیاز کا بھی جو چند ماہ پیشتر ایک روپے کا آٹھ سیرملتا تھا اور اب ڈیڑھ روپے میں ایک سیرملتا ہے۔
چنانچے ہمیں یقین واثق ہے کہ اس دور میں اگرکسی کوسو جوتیاں یا سو پیاز کھانے والی سزا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جائے تو وہ مخالف کو شد ید زک پہنچانے کے لئے پیاز کھانے کی کوتر جیح دے گا ادھر ترکاریاں گوشت کے بھاوٴ بک رہی ہیں اور بکرے کے گوشت کی قیمت انسانی گوشت کے قریب قریب پہنچ گئی ہے۔ رہی دال سووہ اب مہینے کی پہلی تاریخ ہی کو پک سکتی ہے۔
چنانچہ اب اگرمہمان میز بان کو یہ کہے کہ صاحب کوئی تکلف نہیں کر سکا بس دال روٹی حاضر ہے تو اسے محض انکسارسمجھنا چاہیے۔ یہی حال کپڑے کا ہے خریدنے جائیں تو غالب کی بات کوصائب تسلیم کے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ تن کی عریانی ہی بہترین لباس ہے مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق اوپر سے انگریزی فلموں اور پوسٹروں کی پیدا کر دہ گھٹن ہے۔ غنڈہ گردی اور لاقانونیت ہے۔
کارل مارکس انسانی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت پیٹ کو دیتا ہے اور فرائد جنس کو جبکہ ایک تیسراطبقہ ا خلاق کو سب سے اہم گردانتا ہے اور ہمارے ہاں یہ تینوں چیزیں بحران کا شکار ہیں۔ بقول شخصے:
ایک دکھ ہو تو کوئی اس کا مداوا بھی کرے
درد دل درد جگر درد کمر تینوں ہیں!
غالباََ ہمارے دوست ٹھیک ہی کہتے ہیں ”کہ آخرتمہیں وطن واپس آنے کی کیا ضرورت تھی؟

Browse More Urdu Mazameen