Aman Ka Raag - Article No. 2047

Aman Ka Raag

امن کا راگ - تحریر نمبر 2047

موسم بادلابارش ہویانہ ہوڈاکٹروں کے کلینک پر مریضوں کے موسلا دھار بارش جاری ہے مریضوں کے کھانسے کی آوازیں جیسے بادل گرج رہے ہوں اور نزلے برس رہے ہوں

منگل 22 مارچ 2016

حافظ مظفر محسن:
موسم بادلابارش ہویانہ ہوڈاکٹروں کے کلینک پر مریضوں کے موسلادھاربارش جاری ہے مریضوں کے کھانسے کی آوازیں جیسے بادل گرج رہے ہوں اور نزلے برس رہے ہوں بڑے لوگوں کی بڑی باتیں سرکاری ہسپتال کی حالت ذرادیکھ کر لوگ پرائیوٹ کلینک پر جانے پر مجبور ہیں زندگی تو سب کو عزیز ہے ناں ایک دوست اچھی غزلیں گاتے ہیں کہیں کسی جگہ بہت سے دوست اکٹھے ہوگئے کچھ مہمان بیرون ملک سے بھی تشریف لائے تھے بارش جاری تھی بھیگی شام سردیوں کی ایسی شام میں اندھیرا بھی نہیں ڈراتا بلکہ اچھا لگتا ہے تھورا بہت مرغ مسلم خشک میوے اور دوستوں کی فرمائش جناب کچھ سنائیں سنا ہے کمال کا گاتے ہیں آپ سوری ویری سوری کچھ گلا خراب ہے حرارت بھی ہے بس ذرا طبیعت ناساز ہے موسم نے کچھ زیادہ ہی اثر کردیا ہے دوستوں نے ذرازور دے کر فرمائش کردی تو حسب معمول گلا صاف کیا شرما کے ادھر اُدھر دیکھا اور ارشاد فرمایا بس زیادہ نہیں گاسکوں گا ایک دو اشعار ہی ہوسکے گے ذرا گلا(اپنا گلا خود ہی دونوں ہاتھوں سے باقائدہ دبائے ہوئے) بس کچھ زیادہ ہی ہوگیا اور چوتھے کالے سے موصوف نے جوشارٹ لیا تو شام چورا اسی اور صبح پچاسی والے سب رنگ رہ گئے ہم تو حسب حکم دو اشعار سنے اور اپنے باس کے ڈر سے جلد ہی اٹھ گئے ہاں البتہ صبح لوگوں نے بتایاکہ محفل صبح تین بجے ختم کی گئی شاید بائیس غزلیں وغیرہ ہی گاہی گئیں خدا کی پنا بڑے لوگوں کی بڑی باتیں گلے خراب کے ساتھ موصوف بائیس غزلیں (صرف) گاگئے اور اگر خدانخواستہ گلا ٹھیک ہوتا تو خدا کی پناہ بہرحال قدردان بھی موجود ہیں اور اپنے اپنے حلقوں میں نہایت کمال فنکار بھی ہمارے یہاں موجود ہیں مگر افسوس کے حکومتی سطح پر وہ سر پرستی ابھی میسر نہیں جوہانی چاہیے مہندی حسن صاحب جو بلاشبہ لیبنڈ ہیں اور اُن کا نام پوری دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے محترمہ ریشماں صاحبہ ہیں بیماریوں نے گھیر رکھا ہے مگر کوئی پر سان حال نہیں سنا ہے صحافتی دنیا کے ایک تابندہ ستارے جن کا زمانہ احترام کرتا اور تقلید بھی اور ہم سب اُن کا دل وجان سے احترام کرتے ہیں ایک دفعہ محترمہ ریشماں صاحبہ ادارے کی بلدنگ میں تشریف لائیں تو موصوف نے خیر خریت دریافت کی پتہ چلا کہ محترمہ بیمارہیں تو کمال عزت احترام سے پیش آئے اور اپنے سٹاف سے کہا کہ ایک معقول رقم بیماری فنکارہ کو ہر ماہ دی جائے اور پھر انہیں روائتی طریقہ پورے احترام کے ساتھ رخصت کیا اس طرح کے بزرگ تو نمود نمائش کے بغیر چپکے سے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں ہمیں بھی بلاشبہ اس معاملہ میں بھی اُس کی تقلید کرنی چایئے بات شروع ہوئی تھی بائیس غزلوں اور پہنچ گئی فنکاروں کے ساتھ ہونے والی زیایتوں تک عابد کمالوی کا شعریاد آیا عمر بھی شارشیں ہوتی رہیں میرے خلاف مرگیا تو ریفرنس برسیاں ہونے لگیں کچھ عرصے پہلے پرویز مہندی ابھی زندہ تھے تو مرحوم نے ایک جگہ ایک عمر رسیدہ شخص آکر بیٹھ گیا جہاں بیٹھ کر پرویز مہندی نے گانا تھا اور بلندآواز میں عمر رسیدہ شخص بولا پرویز سناؤ تم نے اپنا گانا بہتر کیا ہے یاپہلے جیسا ہی ہے عطائیوں جیسا پرویز مہندی بجلی کی تیزی کے ساتھ اُٹھتے اور سیدہ اسٹیج پر آئے اُ س عمر رسیدہ شخص کے کان میں کچھ کہا اور دونوں تیز تیز قد م اُٹھاتے ہال سے باہر نکل گیا کچھ دیر بعد پرویز مہدی اکیلے ہی ہانپتے کانپتے ہال میں واپس آئے تو لوگوں نے تھوڑا سا شور مچایا مذاکرات ہاں ہاں پرویز مہدی بولے ہاں ہاں کامیاب ہو گئے مذکرات کامیاب ہوگئے اور سارا ہال قہقہے لگانے لگا ہر کام کی اپنی باریکیاں ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ وقت آنے کے ساتھ ساتھ سمجھ میں بھی آجاتی ہیں اور تجربہ اُن سے نبردآزماء میں اور ہر وقت یاجوڑا یجنسی والا واقعہ لوگوں کو پسند نہیں آیا تشدد کاروائیاں انسانی جذبات کو ہوا دیتی ہیں ایم ایم اے کے ساتھ ایم کیوایم بھی اس معاملے میں ساتھ ہے شابد ساتھ چند دن اور چل جائے جذباتی لوگ ایسے معاملات میں زیادہ ہی جذباتی ہوجاتے ہیں اور رہی بامفاد پرستو کی وہ توہر وقت موقع کی تاک میں ہوتے ہیں امریکہ کو چاہیے کہ وہ یہ چوہے بلی کا کھیل ذرا کم کردے اور مذاکرات پر توجہ دے عراق میں تودونوں طرف سے تستدد کاروائیاں جاری ہیں ہمارے خطے میں معاملات ذرا مختلف نوعیت کے ہیں بہتر ہے دونوں گروپ اس خطے کو پُرامن ماحول فراہم کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں ویسے میزذرا چھوٹی ہوتو بہتر ہے کیونکہ موسم بھی بدلتے رہتے ہیں اور شدید گرمی کے بعد شدید سردی بھی آجاتی ہے اور پھر بارشیں بھی ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے بادل گرجنے اور نزلے برسنے کا خوف بھی ہوتا ہے ویسے بھی امن کا راگ سب سے اچھا رات ہوتا ہے جس کے لیے موسم کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ناہی امن کے راگ کے لیے صبح دوپہر یا شام کاوقت متعین ہے یہ راگ کسی بھی وقت گایا جاسکتا ہے کیونکہ عوام کی اکثریت اس راگ کو سننے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے یہ راگ کوئی عطائی فنکار بھی جاسکتا ہے دنیا میں اٹانک راگ گانے کی بھی ہرو قت تیار یاں ہوتی رہتی ہیں یقینا وہ راگ اگر چھڑگیا تو لوگوں کے کانوں کے پردے بھی پھٹ جائے گے اور شاید دماغ بھی لوگ اٹامک راگ کے بارے میں پوری طرح باخبر ہیں اس لیے سب کوہوش سے کام لینا چاہیے اچھا فنکار عوام کا نبج شناس ہوتاہے اس لیے بڑے فنکاروں کا چاہیے کو وہ ایک بڑی سی محفل سجائیں اور امن کا راگ چھیڑ دیں لوگ ساتھ مل جائیں گے اور یہ خراب گلے کے باوجود صبح سوا تین بجے تک جاری رہے گی کیونکہ لوگوں ککو مزہ آئے گا دیر کے بعد یہ راگ سن کر خوشی بھی محسوس ہوگی مگر ضروری ہے کہ بڑے فنکار بھی اسٹیج پر موجود ہوں۔

Browse More Urdu Mazameen