Bara Baras Baad - Article No. 2281

Bara Baras Baad

بارہ برس بعد - تحریر نمبر 2281

مثل مشہور ہے کہ بارہ برس کے بعد گھوڑے کے دن بھی پلٹتے ہیں ۔مثالیں تو بہت سی مشہور ہیں سوال یہ ہے کہ ان میں سے صداقت کتنی آتی ہیں ۔

بدھ 3 اکتوبر 2018

شوکت تھانوی

مثل مشہور ہے کہ بارہ برس کے بعد گھوڑے کے دن بھی پلٹتے ہیں ۔مثالیں تو بہت سی مشہور ہیں سوال یہ ہے کہ ان میں سے صداقت کتنی آتی ہیں ۔واقعہ کتنی بنتی ہیں ۔مگر یہ مثل تو واقعی بن کر اپنی مثال خود ہی بننے والی ہے اس لئے کہ کراچی کے دور افتادہ سپاٹ علاقہ کو رنگی کونہ صرف نام رکھ کر گلستان کراچی بنایا جار ہا ہے بلکہ اہتمام پاکستان بننے کے بعد گیارہ سال تک تو یوں ہی لق دوق پڑا رہے گا اور بارہواں سال آتے ہی اس کے ایسے دن پلٹیں گے کہ وہ ہی دن میں ایسا ماجرا ہو جائے گا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو جائیگا جو صاحبان کو رنگی کے رنگ اب سے پہلے دیکھ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس بے آب د گیاہ دو ر افقادہ علاقہ کو اب تک قبرستان تک بنانے کا کسی کو خیال نہ آیا اس لئے مردے لاکھ مردہ سہی مگر وہ ایسے بھی نہیں ہوتے کہ ان کو کسی ایسی جگہ دفن کرکے زندگی کا اتنا شدید انتقام لیا جائے اور مرجانا ماہی کا فی نہ سمجھ کر ان کو مرنے کے بعد بالکل ہی ما ر ڈالا جائے ایسی جگہ سُپر د خاک کرکے۔

(جاری ہے)


مگر اب یہی نظر انداز علاقہ نظر نواز بننے والاہے کہ لوگ دُور دُورسے دیکھنے آیا کریں گے اور رشک کریں گے ان لوگوں پر قسمت پر جو یہاں آبا د کئے جائیں گے ۔بلکہ بہت سے لوگ تو کف افسوس ملیں گے کہ ہم نے جلد بازی سے کام لیکر رشوت وغیرہ لے لوا کر محض اپنی گلبگیوں سے جان بچانے کے لئے نہایت بیہودہ مکانات کیوں بنوائے اگر صبر اور شکر سے کچھ دن اور پڑے رہتے اور ان ہی تکلیف وہ مجھگیوں میں ہم سب کو بھی صبر کایہ میٹھا پھل مل جاتا اور ہم کو بھی اس فردو س بروئے زمین میں رہنے کے لئے مدعو کیا جاتا اب عاطہیہ ہے کہ ایک تو اپنی بے صبری کی وجہ سے ہم کو اس جنت الفردوس میں جگہ نہیں مل سکتی دوسری مصیبت یہ ہے کہ جو مکان دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہم نے بنایا ہے اس کے متعلق بھی اب بتا نا پڑ ے گا کہ کہاں سے بنایا کسی آمدنی سے بنایا ااور اس کے دروازے پر ہم نے جو لکھ رکھا ہے ۔
وہ فضل ربی ہم پر کب اور کن حالات میں ہوا تھا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ تمام راز کی باتیں کسی کو کیوں کر بتائی جاسکتی ہیں مگر حالات ایسے پیدا کر دئیے گئے کہ اب تو بتانا ہی پڑیں گی اور سچ سچ بتانا پڑیں گی ۔مگر یہی ہے کہ کسی زبان سے کہیں گے
یہ رشوت کی کاریگری ہے جناب
کورنگی بستی ہوگی ان اہل صبر کی جو گیارہ سال تک خس وخاک کی شرح رواں دواں رہے جو جھگیوں میں ہر مصیبت کے ریلے سے اپنے ایمان کو بجاتے رہے جو گر میوں میں لو کے تھپیڑے کھاتے رہے ۔
بارش میں بھیگ بھیگ کر اپنے کو سکھاتے رہے اور جاڑے میں ان ہی جھگیوں میں پڑے نٹھٹو تے اس گلستان کراچی میں اب چہچہائیں گے وہی پنچھی جن کو ساتھ لیا ہیں چڑیاں نے اپنے شکار کے طور پر پنچروں میں بند کر رکھا تھا اب یہاں منقد پیزیڑ جوس نفس اس گلستان کراچی میں خوش کے تڑاتے گائیں گے۔
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مراحق ہر فصل بہاردر پھرتے
انداب ان کو بھی اندازہ ہو گا کہ جو آزادی حاصل ہوئی ہے اس میں ان کا بھی حصہ ہے ۔

اس گلستان کراچی میں جگمگانے کے لئے بجلی پہنچائی جارہی ہے ۔جولوگ قطاروں میں لگ لگ نل پر پانی بھراکرتے تھے اور پانی کے لئے سر پھٹول کرکے خون تک بہایا کرتے تھے ان کے لئے واٹر سپلائی سکشن قائم کیا گیا ہے اور یکم جنوری سے پانی کی سپلائی بھی شروع ہو گئی ہے تا کہ تعمیری کا م ہیں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو سکے صاحب یہ بجلی پانی کیا وہاں ٹیلی فون اکسینچ تک قائم ہوا ہے اسپتال بن رہے ہیں اسکول اور کالج بن رہے ہیں مسجدیں بن رہی ہیں اور کواٹر تعمیر کرنے میں وہی تمام ادارے سر توڑ کوشش کررہے ہیں جو پچھلے نظم ونق ہیں اس تسلیم کے مطالبے کرنے والوں کے سر توڑ دیاکرتے تھے کے۔
ڈی ۔اے میونسپل کارپوریشن پی۔ڈبلیو ۔ڈی کون ساادارہ ہے جو یہاں سر کوارٹر مکمل ہو جائیں گے اور بے گھر مہاجرین نئی جون میں آسکیں لہٰذا آج کل بے خانما مہاجرین ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے پھرتے ہیں کہ :۔
سُنا بھی سلامت اللہ ہم لوگوں کے متعلق اب سرکاری طور پر یہ طے ہو گیا ہے کہ ہم بھی انسان ہیں ۔
انسان ہیں ؟یعنی ہم انسان ہیں ؟کیوں دماغ خراب ہوا ہے تمہارا الہ دین بھیا ہم صرف مہاجرین اور کچھ نہیں ۔

نہیں بھائی سلامت اللہ اپنی قسم اب یہ طے ہو گیا ہے کہ کسی کو مہاجرنہ رکھا جائے گا ۔اب ہم اپنے کو مہاجرنہ کہہ سکیں گے۔
”چلو چھٹی ہوئی اب مہاجر کہنے سے بھی گئے ۔
”یہ بات نہیں ہے بلکہ اب ہمارے لئے کر رنگی میں گلستان کراچی بنایاجارہاہے ۔“
اور اس کے بعد جب الہ دین گلستان کراچی کی تفصیلات سناتے ہیں تو علامت اللہ ان کو خوفزدہ نظروں سے دیکھتے ہیں کہ مصائب برداشت کرتے کرتے آخر بے چار ے کا دماغ چل گیا مگر جب خود کورنگی کے بدلتے ہوئے نقشہ کو دیکھتے ہیں تو ان کے دماغ پر بھی یہی اثر ہوتا ہے اور مارے خوشی کے یہ بھی دوسروں کو یہی ثردہ سُنانے کے لئے دوڑتے ہیں ۔

مگر ان ہی خوش نصیبوں میں آپ کوایسے ایسے لوگ بھی ملیں گے جو کورنگی کے رنگ کو پکڑ گلستان کر ا چی بننے کی تفصیلات اخبارات میں پڑھ پڑھ کر اور مصتبر لوگوں سے سُن سُن کر سخت ثپرُ مردہ بھی ہیں گویا ان کے لئے کسی کا لے پانی کا انتظام کیا جارہا ہے ۔اور ان کو بجور دریائے شور بھیجنے کے منصوبے ہوئے ہیں ان سے پوچھئے تو نہایت بہیودہ وجود بتاتے ہیں کہ
اجی ہاں بن رہا ہے گلستان کراچی بن رہے ہیں کواٹر بھی اسپتال بھی سکول بھی کالج بھی پارک بھی ڈاک خانہ بھی کارخانے بھی سب ہی کچھ بن رہا ہے مگر کسی سنیما بنے کی اطلاع ہی نہیں ۔
اب بتائیے اتنی دور سے ہم شہر آیا کریں گے گو یا پکچر دیکھنے۔
پر چھائیوں کے یہ دیوانے واقعی وہاں جانے کے تصور سے کیوں نہ گھبرائیں مگر ان کو یقین رکھنا کہ کورنگی کو جس پر بنا یاجارہا ہے اور اس گلستان کے لئے جن بہادروں کو انتظام کیا جارہا ہے ان میں یہ کھیل تماشے رفتہ رفتہ خود ہی پہنچ جائیں گے ان کا انتظام کوئی کرتا نہیں یہ چیز تو اپنا انتظام خود ہی کرلیتی ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان میں تو سب ہی چیزیں توظاہر نہیں ہوئی ہیں ورثہ ظاہر ہے کہ وہاں قبرستان بھی بنے گا۔حوالات بھی بنا نا پڑے گی اور اسی قسم کی نہ جانے کتنی چیزیں بنائی جائیں گی ممکن ہے اسی میں سنیما بن جائے سنیما نے جب لاکو کھیت تک کو نہ چھوڑا تو ایسے پر فضا گلستان کوکیسے چھوڑ دے گا ممکن ہے آپ کو وہاں جا کر کہنا پڑے کہ:۔
یہ ہر زمین کہ رسیدیم سنیما پیداست

Browse More Urdu Mazameen