Five Star Hotel - Article No. 2245

Five Star Hotel

فائیو سٹار ہوٹل - تحریر نمبر 2245

سفید پوش وہ ہے جو ماسی بر کتے کے تندور سے کھانا کھا کر نکلے اورہوٹل بلٹن کے باہر کھڑے ہو کر خلا ل کرتا پایا جائے۔مگر کچھ سفید پوش ایسے بھی ہیں جن کا ”مفتا“اگر کسی فائیو سٹار ہوٹل میں لگ جائے تو وہ وہاں سے کھانا کھا کر نکلتے ہیں

بدھ 1 اگست 2018

سفید پوش وہ ہے جو ماسی بر کتے کے تندور سے کھانا کھا کر نکلے اورہوٹل بلٹن کے باہر کھڑے ہو کر خلا ل کرتا پایا جائے۔مگر کچھ سفید پوش ایسے بھی ہیں جن کا ”مفتا“اگر کسی فائیو سٹار ہوٹل میں لگ جائے تو وہ وہاں سے کھانا کھا کر نکلتے ہیں اور عادتاََ ماسی برکتے کے تندور کے سامنے کھڑے ہو کر خلال کرنے لگتے ہیں۔خود ہمارا شمار بھی انہی سفید پوشوں میں ہوتا ہے مگر ہم میں اور دوسرے سفید پوشوں میں فرق یہ ہے کہ مختلف میٹنگوں اور کانفرنسوں وغیرہ کے دوران ہمیں فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوتا ہے لیکن کھانا وغیرہ کھانے کے بعد ہم عادتاََ نہیں احتیاطََ چائے کسی بابو ہوٹل میں جا کر پیتے ہیں، احتیاط اس لیے کہ کانفرنس کے منتظمین بسا اوقات صرف کمرے کا کرایہ اور کھانے کا بل ادا کرتے ہیں، چنانچہ جو مہمان ان ہوٹلوں میں چائے پیتے ہیں، وہ اکثر اپنے ”رسک“پر پیتے ہیں، بلکہ جن کانفرنسوں کا ہم نے ذکر کیا ہے، ان کے منتظمین کی طرف سے جو ”ہدایت نامہ“جاری کیا جاتا ہے،اس میں ایک ہدایت یہ بھی ہوتی ہے کہ لانڈری اور استری وغیرہ کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے، چنانچہ جو سمجھ دار مہمان ہیں وہ ہوٹل میں ”استری “اپنے ساتھ لاتے ہیں۔

(جاری ہے)


جس طرح ہر کام کے پس پردہ کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے،اس طرح یہ کالم لکھنے کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ ہم ان فائیو سٹار ہوٹلوں کے بہت زخم خوردہ ہیں اور وہ یوں کہ کبھی کبھاراگر ”مفتا“نہ لگے تو وضع داری قائم رکھنے کے لیے اس ”قماش“کے ہوٹلوں میں اپنے خرش پر بھی ٹھہرنا پڑ جاتا ہے، بصورت دیگر احباب پر سفید پوشی کا بھرم کھل جاتا ہے، گزشتہ دنوں ہم نے ایک اسی قسم کے ہوٹل میں قیام کے دوران ناشتہ منگوایا اور ناشتے کے بعد بل کا مطالعہ شروع کیا تو اس میں انڈے کے چودہ روپے لگائے گئے تھے، ہم نے ویٹر سے پوچھا کہ بھائی اس انڈے کے سلسلے میں منیجرصاحب کو خود بھی کوئی زحمت اٹھانا پڑتی ہے جوہم پر غصہ اتارنے کے لیے اتنے پیسے چارج کیے ہیں، مگر وہ بیچارا جواب میں مسکرا کر خاموش ہو گیا۔

اسی طرح ایک دفعہ غلطی سے ہم نے شلوار ، کرتہ دھونے کے لئے دے دیا، شام کو دیا، صبح دس بجے چاہیے تھا، لانڈری بوائے نے کہا جناب ارجنٹ پر دھلے گا، ہم نے بے نیازی سے کہا پھر کیا ہوا؟مگر پھر ہوا یہ کہ اس شلوار کرتے کی دھلائی کے ہمیں پچپن روپے ادا کرنا پڑے۔ جب کہ یہ سوٹ ہم نے سیل سے قریباََ اتنے ہی پیسوں میں خریدا تھا اور اس وقت اس کی ری سیل ویلیوتیس روپے سے زیادہ نہیں تھی“۔

ان فائیو سٹار ہوٹلوں کے خلاف ہمارے غصے کی ایک وجہ بلکہ بنیادی وجہ جو ہم نے ابھی تک نہیں بتائی تھی یہ ہے کہ ہم سفید پوشوں کی انا کو ٹھیس پہنچانے کے لیئے ان میں سے ہر ہوٹل نے بجلی کی وائرنگ ٹیلی ویژن ، ریڈیو، اور میوزک سسٹم ، فلش سسٹم اور اس طرح کے جتنے بھی دوسرے سسٹم ہیں، دوسرے ہوٹلوں سے مختلف رکھے ہوئے ہیں اور ان میں کچھ اتنی روزداری بتائی جاتی ہے کہ اگر تلاش بسیار کے بعد ٹیبل لیمپ جلانے کاسوئچ مل گیا ہے تو باقی روم کی لائن آن کرنے کے ”سسٹم “کا سراغ نہیں مل رہا۔
اسی طرح اگر میوزک آن کرنے کی ”ٹیکنالوجی“تک رسائی ہوگئی ہے، تو فلش سسٹم کا پتہ نہیں چل رہا غرضیکہ ہر فائیو سٹار ہوٹل میں ایک نہ ایک ”گھنڈی “ایسی رکھ دی جاتی ہے کہ ہر دفعہ ہوٹل کے ملازم کو بلانا پڑتا ہے اور اسے اعتماد میں لے کر پوچھنا پڑتا ہے کہ بھائی بتی کس طرح چلائی جاتی ہے۔ اور فلش کس طرح چلایا جاتا ہے اور اس کے جواب میں وہ موذی آپ کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ ”پتہ نئیں کتھوں آجاندے نیں!“بس یہی ان ہوٹلوں کا ”بزنس سیکرٹ “ بھی ہے کہ گاہک کو احساس کمتری میں مبتلا کرو اور اس کی آنکھیں اتنی چکا چوند کردو کہ وہ ہر دفعہ
جب بھی دیکھ ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہو ا تیری شنا سائی کا
والا شعر پڑھتے ہوئے ہوٹل سے رخصت ہوا اور اس طرح رخصت ہوا جس طرح سکندر دنیا سے رخصت ہوا تھا!
”تاہم واضح رہے کہ ہم نے ابھی تک ان ہوٹلوں کا صرف تاریک رخ دکھایا ہے۔
روشن رخ تو دکھایا ہی نہیں اور ان ہوٹلوں کا رخ ”روشن “تو ایسا ہے کہ پروانوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ شمع کی طرف جائیں یا اس رُخ روشن کا طواف کریں مثلاََ ایک مثبت پہلو ان ہوٹلوں کا یہ ہے کہ جو کاروباری سودے لاکھوں میں طے ہونے ہوتے ہیں وہ ان ہوٹلوں کے ذریعے کروڑوں میں طے ہو سکتے ہیں۔
ان ہوٹلوں میں اٹھنے ، بیٹھنے اور لیٹنے والا شخص اس قدر معزز سمجھا جاتا ہے کہ اس کا کالا دھن بھی سفید ہو جاتا ہے بلکہ بیشتر صورتوں میں تو خون سفید ہو جاتا ہے۔
دوسروں کو چھوڑیں انسان اپنے طور پر خود کو اتنا معزز سمجھنے لگتا ہے کہ اسے دوسرا کوئی شخص معزز ہی نہیں لگتا اور یوں ان پر ہوٹلوں کے ذریعے معاشرے میں عزت کا جو ”خود تشخیصی نظام“نافذ ہوا ہے ، اس کے نتیجے میں ساری قدروں پر از سر نو نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے، تاہم ان معاشی اور معاشرتی حوالوں کے علاوہ ان فائیو سٹار ہوٹلوں کی ایک قومی خدمت بھی ہے۔ جسے کم از کم ہم پاکستانی فراموش نہیں کر سکتے ، سقوط مشرقی پاکستان کے موقع پر جب عام پاکستانی مکتی باہنی اور بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں گاجروں مولیوں کی طرف کٹ رہے تھے۔ ہمارے بڑے بڑے افسروں اور معززین نے ڈھاکہ کے ایک فائیو سٹار ہوٹل ہی میں پناہ لی تھی!

Browse More Urdu Mazameen