Ghair Tarbiyat Yafta Driver Aur Tarbiyat Yafta Traffic Police - Article No. 2226

Ghair Tarbiyat Yafta Driver Aur Tarbiyat Yafta Traffic Police

غیر تربیت یافتہ ڈرائیور اور” تربیت یافتہ“ ٹریفک پولیس! - تحریر نمبر 2226

مجھے ایک عادت جلد بازی کی بھی ہے۔ فلائٹ اناوٴنس ہوتے ہی میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور جہاز میں سوار ہونے والا پہلا مسافر ہوتا ہوں چنانچہ ایک گھنٹہ بند جہاز میں بیٹھ کر اباسیاں لیتا رہتا ہوں

بدھ 2 مئی 2018

آج میں ٹریفک کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ چونکہ آج تک میں نے جن مسائل پرلکھا ہے الحمد اللہ ہم سب حل ہو گئے مثلا بے روزگاری رشوت ستانی، منشیات بلیک میلنگ جہالت سیاسی بوالعجیاں ‘معاشی چیرہ دستیاں وغیرہ میرے کالموں کی وجہ سے معاشرے سے نا پید ہوگئی ہیں! اب صرف ٹریفک کا مسئلہ رہ گیا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ مسئلہ میرے کالم سے بھی حل نہیں ہوگا کہ دراصل میں خود اسے حل نہیں کرنا چاہتا۔

مثلا جب میں گھر سے نکلتا ہوں اور میرے سامنے والی گاڑی کا ڈرائیورانڈیکیٹرٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے دایاں ہاتھ باہر کونکالتا ہے تو بقول شفیق الرحمان میں سمجھتا ہوں شاید وہ اپنے کسی دوست کو بلا رہا ہے ایک خیال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ ممکن ہے وہ یہ چیک کرنا چاہ ر ہا ہو کہ کہیں باہر بارش تو نہیں ہورہی ! اگر کوئی خیال ذہن میں نہیں آتا تو وہ یہ کہ وہ ادائیں ہاتھ مڑ نا چاہتا ہے۔

(جاری ہے)

چنانچہ جب و ہوا میں مڑ رہا ہوتا ہے میں اس کی پسلیوں میں گھس رہا ہوتا ہوں!
خواتین و حضرات! مجھے ایک عادت جلد بازی کی بھی ہے۔ فلائٹ اناوٴنس ہوتے ہی میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور جہاز میں سوار ہونے والا پہلا مسافر ہوتا ہوں چنانچہ ایک گھنٹہ بند جہاز میں بیٹھ کر اباسیاں لیتا رہتا ہوں، سینما میں فلم ختم ہونے سے پہلے باہر گیٹ پر پہنچ چکا ہوتا ہوں کہ مجھے پتہ نہیں کس بات کی جلدی ہوتی ہے۔
اورٹریفک سگنل ابھی سرخ ہوتا ہے تو میں اپنی گاڑی آہستہ آہستہ
کھسکا تا چوک کے عین درمیان میں پہنچ جاتا ہوں جس سے دوسری طرف سے آنے والاٹریفک بند ہو جاتا ہے۔ مجھے اپنی گاڑی کسی اسی جگہ پر پارک کرنے کا بھی شوق ہے جس سے ٹریفک میں معقول حد تک خلل واقع ہوکئی دفعہ پھاٹک وغیرہ بند ہونے پر میں اپنی گاڑی مخالف لین میں لے آتا ہوں
تا کہ پھاٹک کھلتے ہی میں زن سے اپنی گاڑی نکال کر لے جاوٴں‘ میری تقلید میں باقی حضرات بھی اپنی گاڑیاں میرے پیچھے لگا لیتے ہیں چنانچہ جب پھاٹک کھلتا ہے ٹریفک بند ہو جاتا ہے۔
خواتین و حضرات یہ اور اس طرح کی بہت سی دوسری حرکتیں ہیں جس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میں ٹریفک کے مسائل حل نہیں کرنا چاہتا۔
ٹریفک کے مسائل حل طلب رکھنے کی خواہشمند ایک پارٹی اور بھی ہے اور وہ مختلف سرکاری محکمے ہیں جو سارا سال مختلف حیلے بہانوں سے سڑکیں کھودنے میں لگے رہتے ہیں لگتا ہے جیسے انہیں کسی خزانے کی تلاش ہے۔ مثلا دو سال مسلسل احتجاجی مظاہروں کے بعد ملتان روڈ حال ہی میں تعمیر ہوئی تھی اور اب پھر کسی محکمے نے اس کی کھدائی شروع کر دی ہے۔
چنانچہ ایک طویل عرصے تک اس سڑک کو اب ٹریفک کے لیے تقر یبابند ہی سمجھیں۔ ٹریفک دشمنی میں میرے اور سرکاری محکموں کے علاوہ والدین بھی پیش پیش ہیں جو صر ف یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ میاں بیوی میں بہت سلوک ہے بچے پیدا کرتے چلے جارہے ہیں اوپر سے منشیات کی کمائی اور رشوت کے نرخوں میں اضانے کی وجہ سے کاریں اور موٹر سائیکل بھی بہت ہو گئے ہیں۔
جس کے نتیجے میں سڑکیں آبادی اور بڑھتی ہوئی ٹرانسپورٹ کے بوجھ سے کراہنے لگی ہے۔ چنانچہ یہ تیسرا فریق ہے جوٹریفک کے مسائل حل کرنے کا خواہشمند ہیں!
مگر خواتین و حضرات ایک فریق اور بھی ہے جو ٹریفک کے مسائل حل نہیں کرنا چاہتا اور وہ محکمہ ٹریفک ہے۔ یہ میرا خیال نہیں ہے بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ ٹریفک پولیس کی موجودگی میں بلکہ ان کی نگرانی میں ویگنوں اور بسوں والے ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے منتھلی لی ہوتی ہے یا یہ کہ بسیں اورویگنیں ان کی اپنی ہوتی ہیں یا یہ کسی بااثر سیاسی شخصیت کی ہوتی ہیں۔ میں یہ بھی نہیں مانتا۔ ایک بچہ اپنی ماں سے کہنے لگا اماں میں اپنے ایک دوست سے یہ شرط لگا آیا ہوں کہ کوا سفید ہوتا ہے۔ ماں نے کہا بیٹے تم تو یہ شرط ہار جاؤ گے کیونکہ سب جانتے ہیں کوا کالا ہوتا ہے۔ بیٹے نے کہا اماں! شرط تو میں تب ہاروں گا اگر میں مانوں گا کہ کوا کالا ہوتا ہے۔
سو میں بھی نہیں مانتا کہ ٹریفک کی بدحالی میں ٹریفک کے محکمے کا بھی کوئی قصور ہے میں تو یہ بھی مانتا کہ محکمہ ٹریفک کی پلاننگ میں بھی کوئی کمی ہے کہ اس پلاننگ کی وجہ سے خاصی رونق لگی رہتی ہے۔ کبھی کوئی راوٴنڈ اباؤٹ بنا دیا جاتا ہے بھی ڈھاد یا جا تا ہے چنانچہ لکشمی چوک اور ایم اے او کالج کے راونڈر اباؤٹ توڑنے سے ایک نہایت نصیحت آموز منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔
آپ لکشمی چوک یا ایم اے او کالج کے چوک کا ایریل ویولیں تو آپ کو لگے گا جیسے روزمحشر کی ریہریسل ہورہی ہے۔ چنانچہ اللہ سے ڈرنے والے لوگ عبرت پکڑنے کے لیے ان دنوں قبرستان کا چکر لگاتے ہیں یا ان مقامات کا رخ کرتے ہیں جن کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے اسی طرح بچوں کی دلچسپی اور تفریح کے لیے سڑکوں پر بھول بھلیاں بھی بنائی گئی ہیں۔ مثلا سرکلر روڈ خوصا مسلم مسجد کا قریبی علاقہ اب بھول بھلیوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔
بچوں اور بڑوں کے لیے تفریحی مقامات کی تعمیر ایل ڈی اے کا کام تھا مگر ٹر یفک والوں نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ اب جوابی خیر سگالی کے اظہار کے طور پرٹریفک کا کام ایل ڈی اے والوں کو سنبھال لینا چاہیے۔ ٹریفک پولیس والوں سے عوام کو ایک شکایت یہ ہے کہ ٹریفک کا انتظام کرنے میں انہیں جہاں ذرا سی بھی دشواری کا امکان نظر آئے وہ اس سے بچنے کے لئے پوری سڑک کو بلاک کردیتے ہیں چنانچہ دس افراد کا جلوس بھی سڑک پر نظر آئے تو پر ہجوم ٹریفک کا رخ تنگ گلیوں کی طرف موڑ دیا جا تا ہے اوریوں وہ ہر قسم کی ذ مہ داری سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ممکن ہے ایساہی ہو لیکن مجھے تو ٹریفک والوں کی یہ ادا پسند ہے کہ وہ بندہ بند ہ کو پہچانتے ہیں اور اس کے مطابق ڈیکنگ کرتے ہیں۔
ایک دفعہ ہفتہ ٹریفک کے دوران ریگل چوک میں‘ میں نے ٹریفک کے ایک کانسٹیبل کو دیکھا کہ میگا فون ہاتھ میں پکڑے وہ شہریوں کو ٹریفک کے آداب سے آگاہ کر رہا تھا۔ اعلانات ملاحظہ ہوں!! سفید ٹیوٹا والے صاحب! براہ کرم اپنی گاڑی زیبرا کراسنگ سے پیچھے رکھیں شکریہ۔ ویسپا والے صاحب !!تھوڑا ساصبر بھی کرلیا کریں آ گے مٹھائی تقسیم نہیں ہورہی۔ ذرا پیچھے ہٹیں شکریہ۔ ارے سائیکل والے !!اندھا ہو گیا ہے۔ تجھے زیبرا کراسنگ نظرنہیں آتا۔ یہ پھٹے ہوئے جوتے جیسی سائیکل پیچھے رکھ

Browse More Urdu Mazameen