Hamaray Libaas - Article No. 2289

Hamaray Libaas

ہمارے لباس - تحریر نمبر 2289

انسان نے کیلوں کے پتوں پر تکیہ تو کر لیا مگر جب یہی پتے ہوا دینے لگے تو اس نے سوچا کہ اسے اپنے جسم پر پوشش کروانی چاہئے تاکہ سردی اور گرمی ا س سے بے تکلّف ہونے کی کوشش ہی نہ کرے۔

جمعرات 18 اکتوبر 2018

ڈاکٹر تنویر حسین
حضرتِ انسان جب گیہوں کی تندوری روٹی کے واسطے جنت سے نکل کر زمین پر ہنی مون منانے آیا تو دھوپ اس کا بین الا قوامی لباس دیکھ کر شرما گئی۔حضرت ِ انسان کے استقبال کے لیے جھنڈیاں لگوائی گئی تھیں اور چونا بھی چھڑکوا یا گیا تھا۔انسان نے جھنڈیوں اور چونے کی توپروانہ کی مگر جب اس کی نظر کیلوں کے دروازے پر پڑی تو اس کی گر یجوایٹ حِس نے اسے ایک دم خبر دار کیا کہ یہی وہ”ستارالعیوب“قسم کا پودا ہے جس کے پتوں پر مکمل تکیہ کرکے اپنے آپ کو کیموفلاج کیا جا سکتا ہے ۔


غالب کو بد قسمتی سے آم پسند تھے اور اتنے پسند تھے کہ انھوں نے اس کی تعریف میں باقاعدہ مثنوی تصنیف کی ہے اور آج یہ عالم ہے کہ لنگڑے آم کی قیمت ہی سن کر آدمی لنگڑانے لگتا ہے ۔

(جاری ہے)

اگر چچا غالب کو کیلے کے پودے پسند ہوتے تو وہ اس قسم کا شعر کبھی نہ کہتے․․․․․
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا۔
انسان نے کیلوں کے پتوں پر تکیہ تو کر لیا مگر جب یہی پتے ہوا دینے لگے تو اس نے سوچا کہ اسے اپنے جسم پر پوشش کروانی چاہئے تاکہ سردی اور گرمی ا س سے بے تکلّف ہونے کی کوشش ہی نہ کرے۔

چناں چہ اسے ایک معزول شیر کو درخت پر چڑھنے کا گُرسکھانے کی ٹیوش مل گئی۔جب معزول شیر کو کچھ کچھ درخت پر چڑھنا آگیا تو اس نے بڑی ترنگ میں آکر انسان سے کہا کہ”بول مٹی کے باوے کیا مانگتا ہے؟“انسان نے کہا۔
”مجھے تیری کھال چاہئے“یہی وہ دور تھا ،جب شیروانی کی بنیاد رکھی گئی۔شیروانی اگر چہ ہمارا قومی لباس ہے مگر قوم نے اسے ابھی اپنے اعصاب پر کلیتاً سوا ر نہیں کیا۔
شیروانی کے نام سے تو یوں لگتا ہے ،جیسے اس کی پبلسٹی میں نوشیرواں اور شیر شاہ سوری کا ہاتھ کچھ زیادہ ہی رہا ہے ۔ہمارے ہاں شیروانی شاید اس لیے بھی کم پہنی جا تی ہے کہ ایک تنخواہ دار شخص اگر کسی مہینے اسے سلانے کی جرأت کرلے تو اس کے گھر کا تمام بجٹ ہمارا قومی بجٹ بن جاتا ہے ۔پھر بھی شیروانی وہی لوگ پہنتے ہیں ،جن کا قد اور تقویٰ کم از کم سروجتنا ہو اور ان کے نزدیک وقت کی اتنی قدرنہ ہو،جتنی کہ ویگن اور رکشہ ڈرائیوروں کو ہوتی ہے ۔
غالب نے شیروانی کے بٹن بند کرنے کے کیمیائی عمل کو اس مصر عے میں کیا خوب باندھا ہے ۔
”تھک تھک کے ہر مقا م پہ دو چار رہ گئے“
بس ہمیں ہاکی میدان میں تھوڑا ساخسارہ ہواکہ وہاں ہمیں نیکر اور بنیان والا سلیم شیروانی دستیاب ہوا مگر اس نوجوان مسلم کا تدبردیکھئے کہ اس نے شیروانی کی طوالت اور شرافت کابھرم رکھتے ہوئے اپنے مختصر لباس میں جامع زرلٹ دیا۔
پرانے شاعر شیروانی ہی پہنتے تھے ۔بادشاہ بھی شاعروں کو انعام کے طور پر شیروانی ہی عطا کیا کرتے تھے تا کہ شاعر کچھ پہننے کے لیے روز روز نہ مانگا کریں ۔عورت پر دہ اور فضول خرچی کرے تو برقعہ بنتا ہے لیکن پہننے میں مرد فضول خرچی کرے تو شیروانی بن جاتی ہے۔
یہ جتنی لمبی ہوتی ہے ،اتنی ہی اس کی عمر لمبی ہوتی ہے ۔ہمارے سیاست دان شیروانی بہت شوق سے پہنتے ہیں کیونکہ کہ وہ زندگی میں کٹی باروزارت کا حلف اٹھاتے ہیں اور کئی بارجیل․․․․․یعنی حلف اٹھانے کے لیے پہن لی اور جیل جاکر بچھالی۔
اسے پہن کر بندے کی شخصیت مکمل ہوجاتی ہے اور وہ دوسروں میں معزز سانظر آتا ہے ۔کپڑے جسم ڈھانپتے ہیں ۔یہ کپڑوں کو ڈھانپتی ہے ۔اس کے اوپر کچھ نہیں پہنا جاتا ،اگر اس کے نیچے بھی کچھ نہ پہنا جائے توکچھ فرق نہیں پڑتا ۔
اگر بندہ شیروانی سے اُکتا جائے تو اسے ضرورت مندوں میں برابر تقسیم بھی کیا جا سکتا ہے۔ہم دیہات میں جائیں تو ہمیں ایک ایسا لباس ہر ایک کے کمر ے کے گرد لپٹا نظر آئے گا،جسے اہلِ نظر تہمد کہتے ہیں ۔
اسے دیکھ کر ذہن فوراً رتن ناتھ سرشار کے ناول ”فسانہ آزاد“کے ڈھیلے پلاٹ کی طرف جاتا ہے ۔اگر کوئی پڑھا لکھا دیہاتی تہمد باندھ لے تو ابوالکلام آزاد کا چھوٹا بھائی دکھائی دیتا ہے اور اگر کوئی صرف محمد حسین نامی آدمی تہمد کا اہتمام کرے تو وہ محمد حسین آزاد لگتا ہے ۔سر شار نے تو ”فسانہ آزاد“قلم برداشتہ لکھا تھا اور دیہاتی شاید تہمددل برداشتہ ہو کر پہنتے ہیں ۔

دیہاتی بتانِ رنگ وخوں کو توڑ کر اس لیے بھی تہمد میں گم ہوجاتے ہیں کہ نہ کوئی دیہاتی رہے باقی اور نہ کوئی شہری۔تہمد کی طرح دھوتی بھی پنجابیوں کی ایک ہلکی سے کمزوری ہے ۔یہ اس قدر کثیر المقاصد اور کثیر المناظر ہے کہ ساغرِ جمشید بھی اس کے سامنے ہیچ ہے ۔دھوتی ایک ایسا لباس ،جسے پہن کر بھی بندہ بے لباس ہی نظر آتا ہے ۔دھوتی ہینگر میں لٹکی ہویا بندے کی کمر پر ،کچھ فرق نہیں پڑتا ۔
دھوتی پہن کر بندہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس نے کچھ پہنا بھی ہے یا نہیں ۔
پنجابی اسے نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں پہنتے ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ شب خوابی کے لیے اس سے بہتر روئے زمین پر کوئی لباس ہی نہیں ۔البتہ رات کو پہن کر سوئیں تو صبح تک یہ اپنے اصل مقام سے ہٹ جاتی ہے اور کہیں غائب ہو چکی ہوتی ہے،اس لیے صبح اسے خود بستر کے کسی کو نے کھدر ے سے تلاش کرنا پڑتا ہے ۔
اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اسے بار بار دھو نا پڑتا کیوں کہ اس کا نام ہی دھوتی ہے بلکہ یہ”نہاتی دھوتی “ہے۔
دھوتی کا کوئی حریف لباس ابھی تک بازار میں نہیں آیا ۔اگر ایسا ہوا تو اس کا نام ”میلی“ہو گا۔یہ اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ پھُلکی بھی کیا چیز ہے ․․․․․․کسی انگریز کو کسی پنجابی کے گھر ٹھہرنا پڑا۔رات کو انگریز نے پنجابی سے سلیپنگ سوٹ کا مطالبہ کیا تو پنجاب نے جھٹ اپنے والد صاحب کی آؤٹ آف ڈیٹ دھوتی انگریز کی خدمت میں پیش کردی۔
انگریز نے اسے پتلون کی طرح پہننے کی کوشش کی تو و ہ کپڑے کے تھان کی طرح کھُلتی چلی گئی۔انگریز نے پنجابی سے کہا کہ”تم غلطی سے فالتو کپڑا اٹھالائے ہو۔اسے الماری میں رکھو“۔
صوبہ سرحد میں جاکر احساس ہوتا ہے کہ گھیرے دار شلوار پٹھانوں کا پسندیدہ لباس ہے ۔پٹھانوں کا بچپن ،جوانی اور بڑھاپا شلواروں ہی میں گزرتا ہے ۔پٹھان دائرشلوار میں داخل ہونے کے لیے میٹروں یا گزوں کے چکر میں نہیں پڑتے بلکہ وہ تھان ہی خرید لیتے ہیں ۔
ان کا خیال ہے کہ شلوار میں انسان کا جسم خوب پھلتا پھولتا ہے اور سخت گرمیوں میں یہی شلوار اےئر کنڈیشنر میں بدل جاتی ہے ۔
پتلون پٹھانوں کے نزدیک نہایت ہی نچلے درجے کی چیز ہے کیوں کہ اس میں بے پردگی کے بہت معقول انتظامات موجود ہیں ،پیٹ میں اپھارے کا باعث بھی بنتی ہے اور یہ انسانی صحت کا بھرم بھی قائم نہیں رکھ سکتی۔اس کے علاوہ اسے پہن لیا جائے تو وفادار روبے وفا کُتے پٹھانوں کا راستہ روک روک کر ان کا شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں ۔
پٹھانوں کی غیرت کو یہ بھی گوارا نہیں کہ وہ پتلون پہن کر جہاں جہاں سے گزریں ،لوگوں کی جلالی وجمالی آنکھیں انھیں انگریزوں کی غلامی کا طعنہ دیں ۔انھیں تو اس پتلون سے موت اچھی لگتی ہے کہ جس کی بدولت ان کی شلوار اور نسوار کو تا ہی آئے۔
پاکستان جب سے معرضِ وجود میں آیا ہے ،وہ چیزیں وافر مقدار میں بدلی ہیں ۔حکومتیں اور فیشن ۔کسی زمانے میں تنگ لباس نے پوری قوم کو ہی تنگ کرکے رکھ دیا تھا۔
خاص کر عورتیں جب تنگ لباس میں پھونک پھونک کر قدم رکھتی تھیں تو ان کی تن درستی ان کی تنگ دستی کی چُغلی کھاتی تھی اور وہ ایک انجانے خوف سے گر جانے والی چیزیں بھی بڑی فیاضی سے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتیں ۔
مرد حضرات بھی جب ٹِچ بٹنوں والی پتلونیں پہن کر چلتے تھے تویوں محسوس ہوتا تھا،جیسے وہ بیسا کھیوں کے سہارے چل رہے ہیں ۔تنگ لباس میں پورے جسم کی ہم درد صرف آنکھ ہی ہوتی تھی کیوں کہ مبتلا درد کوئی عضو ہو،روتی تھی آنکھ۔
تنگ پتلونیں جلد یا بدیر پہن تو لی جاتی تھیں مگر انھیں اتارتے وقت کمیٹی والوں کی خدمات مستعار لینا پڑتی تھیں ۔قوم جب تنگ فیشن سے واقعی تنگ آگئی تو اس نے درزیوں کی سلائیوں کو ذوقِ یقین سے ادھیڑ کر ”بیل باٹم“کا فیشن عال کر دیا۔ٹیڈی فیشن کیا تھا۔
سلائیوں میں ظہورِ ترتیب اور بیل باٹم انھی سلائیوں کا پریشاں ہونا․․․․․․بیل باٹم ایک ایسی پتلون تھی ،جو پتلون کم اور ڈُگڈ گی کا غلاف زیادہ لگتی تھی۔
ہمارے ہاں ایک اورلباس ہے ،جو بڑی شدّ ومد سے پہنا جاتا ہے ۔وہ ہے ”جین“۔ جین کے اندر نوجوانوں کی جان ہے ۔اس لیے نوجوان جین پہن کر اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہیں ۔
جین کی اکلوتی پتلون دیگر پتلونوں کو یوں کھاجاتی ہے ،جیسے گناہ نیکیوں کو یا صدقہ بلا کو۔جین ایک تو طلبہ کی غربت اور جوانی کا لحاظ بہت کرتی ہے ،دوسرے،یہ انھیں اپنے شکنجے میں اچھی طرح کَس بھی لیتی ہے ۔
یہ نظر بٹو کے طور پر بھی کام آتی ہے اور سب سے بڑھ کر دھوبی اور درزی زندگی سے یوں نکل جاتے ہیں ،جیسے داڑھی رکھ لینے کے بعد نائی شیو کا سامان ۔
ہماری طلبہ برادری اسی جین کے سہارے کھڑی ہے ۔چاہیے تو یہ تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہم ان کی پتلونوں پر لات مارتے لیکن طلبہ کی لاتوں پر جین کی لاتیں بری طرح مسلّب ہیں ۔بغیر کسی تعصّب کے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جیسے اینٹ کا جواب پتھر ہے ،اسی طرح ہمارے ہاں کے گردو غبار کا جواب صرف جین ہے ․․․․․․
اس کے علاوہ جین پہن کر بیٹھئے ،کھڑے ہو جائیے ،لیٹئے ،حتّی کہ لوٹیناں لگائیے،کیا مجال کہ اس کی کریز میں ایک لکیر کا بھی اضافہ ہو۔
جین دن کا چین اور رات کی نیند بھی حرام کر دیتی ہے کیوں کہ جین شناس جوشِ جنوں میں کسی ریڑھی والے سے پتلون تو خرید لیتے ہیں لیکن اس کے نتائج خارش کی صورت میں نکلتے ہیں ۔جس جین کو تسکین کا پھاہا سمجھ کر خریدا گیا،وہی تکلیف کا باعث بن گئی۔انسان اعضاء کے لیے آسانی پیدا کرنی چاہئے نہ کہ ایسی پتلونوں کے ذریعے انھیں امتحان میں ڈالا جائے ۔
جین ایک بین الاقوامی لباس اور اپنے بارے میں خود کہتی ہے۔
انتہا فیشنوں کی بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
سونا بھٹی کُندن بنتا ہے ،حنا پتھر پہ پس کر رنگ لاتی ہے ،اسی طرح جین لنڈے بازار کی گانٹھوں سے نکل کر فرش پررگڑی جاتی ہے ۔عام طور پر جس کپڑے کا رنگ اُڑجائے،اس کی آب جاتی رہتی ہے اور لوگ اس کے پہننے سے کتراتے ہیں لیکن جین کو یہ شرف حاصل ہے ․․․․․․․․․․․
رنگ کھلتا جائے ہے،جتنا کہ اُڑتا جائے ہے

Browse More Urdu Mazameen