Iqbal Ke Ganay Ka Aashiq ! - Article No. 2211
اقبال کے گانے کا عاشق! - تحریر نمبر 2211
میرا ایک لا ہور یا دوست حج کرنے گیا تو وہاں سخت بیمار پڑ گیا اس نے خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اپنے والد کو خط لکھا کہ میں شدید بیمار ہوں‘ آپ داتا دربار جا کر میرے لیے دعا کریں
ہفتہ 7 اپریل 2018
میرا ایک لا ہور یا دوست حج کرنے گیا تو وہاں سخت بیمار پڑ گیا اس نے خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اپنے والد کو خط لکھا کہ میں شدید بیمار ہوں‘ آپ داتا دربار جا کر میرے لیے دعا کریں۔ مجھے یہ واقعہ ایک وزیر صاحب کا بیان پڑھ کر یاد آ گیا ہے۔ جنہوں نے عہد حاضر کے اد یبوں کو مخاطب کر کے ارشادفرمایا ہے کہ وہ ملت کی ڈوبتی کشتی بچانے کے لیے اپنے قلم کو چپو بنائیں اور اس کشتی کو منجدھارسے نکال لے جائیں۔
اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہہ ہمارے عہد میں ایسے ادیب موجود ہیں جن کا مقام بہت ارفع و اعلی ہے لیکن جس قوم نے اقبال جیسے شاعر اور فلسفی کے کلام کوقوالی تک محدود کر دیا ہو اسے راہ راست پر لانے کے ضمن میں آج کا ادیب کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ ہمارے ریڈیو اور ٹی وی کے کارپرداز ان کا توہی حال ہے کہ وہ اقبال کوبھی فانی بدایونی قسم کی کوئی چیز سمجھتے ہیں۔(جاری ہے)
پلٹنا ’‘ جھپٹنا‘ جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانا
تو ہمارے یہ سیاست دان فوجی آمر کو کمزور پڑتے دیکھ کر لہو گرم رکھنے کے لئے بعد میں اس کے خلاف بھی اتحادی سیاست کا آغاز کر دیتے ہیں حالانکہ اسے لانے والے بھی یہی ہوتے ہیں۔ افسوس ہمارے کی مارشل لاء ایڈمنسٹر یر نے انہیں اقبال کا شعر نہیں سنایا۔
روز حساب میرا جب پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
لیکن جس طبقے کا ذکر میں کر رہا ہوں وہ شرمسار ہونانہیں جانتا۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ ہم سب لوگ شرمسار ہونا بھول چکے ہیں۔ ہم لوگوں کے قول و فعل میں اتنا شدید تضاد ہے گلشن سے آنے والی ہوائیں بھی ہم تک پہنچتے پہنچتے باد صرصر کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ ہمارے عشق میں کھوٹ ہے۔ ساری عمر” میرے مولا بلا لو مدینے “کا وردکرتے رہتے ہیں اور جب بیس ہزار روپے ہاتھ میں آتے ہیں تو مدینے کی بجائے سیدھا ہال روڈ کا رخ کرتے ہیں اوررنگین ٹیلی وژن اٹھا لیتے ہیں۔ قرآن اور حدیث سے ز یا د منبع ہدایت کوئی نہیں لیکن ان پرعمل کے دوران جہاں مشکل مقامات آتے ہیں یعنی ہماری جان و مال پر زد پڑنے لگتی ہے ہم کنی کترا جاتے ہیں۔ ایسے ہی بد باطن لوگوں کے لیے بعض علماء کا ہی فتوی موجود ہے کہ انکم ٹیکس چوری کرنا جائز ہے۔ نیز یہ کہ سونے کی اسمگلنگ از روئے شریعت حرام نہیں ہے۔ گذشتہ چودہ سو برسوں میں صرف ان دو امور میں ”اجتہاد “کیا گیا ہے جبکہ اس دوران سینکڑوں ایسے مسائل جنم لے چکے ہیں جن کے ضمن میں اجتہاد کی اشد ضرورت ہے۔ اقبال نے اپنے خطبات میں جتناز وراجتہاد پردیا ہے اتنا شایدہی کسی اور بات پر دیا ہو۔میرے نزدیک وہ تمام چیزیں جوحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مو جو بھی نہیں تھیں اور جن کے بارے میں کوئی واضح حکم بھی موجود نہیں‘ انہیں ایک قلم مسترد کرنے کی بجائے ان پر غور و فکر اور اجتہاد کی ضرورت ہے۔ کوئی قانون اندھادھند نافذ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس سے پہلے تمام معروضی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ ایک بدو حضور نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ روزے کے دوران مجھ سے ایک ایسی حرکت سرزد ہوگئی جس سے روزہ ساقط ہو گیا ہے‘ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا ”ایک غلام آزاد کر دو“ بدو نے کہا کہ حضور میرے پاس کوئی غلام ہے ہی نہیں“ آپﷺ نے فرمایا۔ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو‘ بدونے عذر پیش کیا کہ اس میں اتنی استطاعت نہیں۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ”تیس روزے رکھ لو بدو بولا ”حضور میں تو ایک روز نہیں سنبھال سکا مزید تیس روزے کیسے سنبھال سکوں گا؟ اتنے میں ایک صحابی حضور نبی اکرم ﷺکے پاس کھجوروں کا تحفہ لے کر آئے۔ آپ نے بدو نے کہا کہ یہ کجھوریں لے جاوٴ اورمستحقین میں تقسیم کرو “بدو ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اوربولا” حضورجس خدانے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ‘مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ ان کھجوروں کا مجھ سے زیادہ کوئی مستحق نہیں“ اس پر رحمت اللعالمین ﷺکے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور فرمایا“ ٹھیک ہے تم یہ اپنے بچوں میں تقسیم کر دو‘ میرے خیال میں حضور نبی اکرمﷺ کا یہ عمل ہمارے فقہا کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام ایک محدودزمانے اور کسی مخصوص طبقے کے لیے نہیں تھا بلکہ تمام زمانوں اور تمام طبقوں کے لیے ہے۔ اسلام امن ہے محبت ہے رحمت ہے خدا کے لیے لوگوں کے سامنے اس کی بھیانک تصویر پیش نہ کریں اگر آپ تسلیم نہیں کرتے تو کم از کم اتنا کرم ضرور کریں کہ جو آپ سے اختلاف کرے اسے منکر اسلام قرار نہ دیں کہ وہ منکر اسلام نہیں بلکہ اسے صرف آپ کی اسلام کی انٹرپیٹیشن سے اختلاف ہے۔ اسلام کی جوانٹرپیٹیشن آج کی جارہی ہے اقبال اس کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ قانون سازی کا حق علماء کو نہیں پارلیمنٹ کو دیتے ہیں ہماری پوری قوم عاشق اقبال ہے۔ ان میں ہمارے علما ء بھی شامل ہیں جو اقبال کے شعروں سے اپنی تقریر اور تحریر میں مزین کرتے ہیں لیکن اقبال کا کہا نہ حکمران مانتے ہیں نہ سیاست دان‘ نہ عوام نہ علماء اس کی جو بات ہمیں ”سوٹ “کرتی ہے ہم اس کا گھوٹا لگانے میں رہتے ہیں اور جو ہمارے مفادات سے ٹکراتی ہے اسے ردی کے کاغذ کی طرح پرے پھینک دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے ٹیلی وژن سے اقبال کے یہ شعرکبھی نہیں سنے ہوں گے
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزیقیں سے
کنجشک فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو
میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ کو جلا دو
اسی طرح یہ مصر عے اور شعر بھی کسی منبر سے آپ نے نہیں سنے ہوں گے۔
لرز جاتا ہے آواز اذاں سے
حقیقت خرافات میں کھو گئی
Browse More Urdu Mazameen
گھورنا منع ہے
Ghurna Mana Hai
گھاگ
Ghag
بن بیاہوں کی کانفرنس
Bin Biyahon Ki Conference
حویلی
Haweli
ہم نے کتا پالا
Humne Kutta Pala
وقت کی مار
Waqt Ki Mar