Ishteharat Mere Des K Afshan Ho Gaye - Article No. 2074

Ishteharat Mere Des K Afshan Ho Gaye

اشتہارات میرے دیس کے افشاں ہوگئے - تحریر نمبر 2074

ھمارا ملک میں لوگ یا اشتہا ر دیکھ کر چیز خریدتے ہیں یا خوف کی وجہ سے اشتہاری کو دیکھ کر۔یہ اشتہار بھی کمال کے ہوتے ہیں حالانکہ کمال کا کچھ بھی نہیں وہ تو خود بھی اپنا نہیں اسے دیکھ کر ہی شاعر نے کہا تھا۔تو کسی اور کا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔ اسے لگا اسکا مطلب کھانے والا بن ہے۔آج کل اس شعر سے متاثر ہو کر وہ ایک بن بنانے والی فیکٹری میں کام کر رہا ہے

جمعرات 22 ستمبر 2016

سخاوت حسین
ھمارا ملک میں لوگ یا اشتہا ر دیکھ کر چیز خریدتے ہیں یا خوف کی وجہ سے اشتہاری کو دیکھ کر۔یہ اشتہار بھی کمال کے ہوتے ہیں حالانکہ کمال کا کچھ بھی نہیں وہ تو خود بھی اپنا نہیں اسے دیکھ کر ہی شاعر نے کہا تھا۔تو کسی اور کا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔ اسے لگا اسکا مطلب کھانے والا بن ہے۔آج کل اس شعر سے متاثر ہو کر وہ ایک بن بنانے والی فیکٹری میں کام کر رہا ہے بعض اوقات ان اشتہارات کو دیکھ کر ہنسی آتی ہے۔
حالانکہ بنانے والے مکمل سنجیدگی سے بناتے ہیں عوام کو ماموں۔
بھلا وہ کونسا فیس واش ہے جو نہ صرف آپکو واش کرتا ہے بلکہ بعض لوگوں جن کے چہرے دیکھ کر یہی گما ں ہوتا ہے برسوں سے لعنت ہی چلی آرہی ہے۔اسے بھی ایک واش میں واش کر دیتا ہے۔اس سے بڑھ کر اس صابن کی کہانی سن لیجئے جسے بس ذرا سا ہی لگا نا ہے اور بس ذرا سا لگانے پر خواتین آنکھیں بند کرکے ان لوگوں کی مہک سے بھی خود کو مہکا رہی ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

جنکو روز محلے میں یہی کہا جاتا ہے۔ عید آگئی ہے۔ اور پانی بھی آگیا ہے۔۔جا کر نہا لو اور محلے کی جان چھوڑو۔یہ لوگ اس لئے نہیں نہاتے کیونکہ یہ محلے کی جان کے پیچھے ہی خجل خوار ہوریے ہوتے ہیں۔اور اگر اس کی جان چھوڑ دی تو مقصد حیات ہی ختم ہو جائے گا۔۔
اب سرف کا اشتہار ہی دیکھ لیجئے میرے میاں کسی کام کے نہیں نہ کاج کے ہیں وہ بس اس کملوہی کے ہیں جسے سارا محلہ آلو آلو کہ کر بلاتاہے۔
میرے میاں جب بھی دفتر جاتے تھے تو دفتر والے ان کی بو سے ساتھ والے دفتر چلے جاتے تھے۔پھر ایک دن فوزیہ ملی۔ حرکتیں بالکل میری نند والی ہی تھیں اسکی۔ اس دن اس نے بتا یا میاں کو کپڑوں سمیت اس سرف سے دھو دو۔میں نے ایسا ہی کیا۔ یقین کریں اب دفتر والے بالکل بھی نہیں بھاگتے کیونکہ اب ان سے سمل نہیں آتی ۔غلطی سے زیادہ صاف کرنے کے چکر میں،میں ان کو مشین سے نکالنا بھول گئی اور وہ مشین کی نالی اور باقی نالیوں سے ہوتے ہوئے اپنی اصلی جگہ جاپہنچے۔
اب وہاں کوئی ان کو سمل کی شکایت نہیں کرتا۔
ایک شیمپو کا اشتہا ر تھا جلد آپ کے بال گرنا بند۔ شیدے نے لگایا۔ اور کیا لگایا۔واقعی اسکے بال گرنا بند ہوگئے۔اب سر پر ایک بال بھی نہیں۔
بچے اسکے سر کو دیکھ کر کہتے ہیں انکل کیاتھوڑی دیر کھیل لیں آپ کی فلیٹ پچ پر۔کمپنی نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ نہ رہیں گے بال۔نا رونا روئیں گے گرنے کا۔
اب ایک سائیکل بنانے والی کمپنی نے ایک اشتہار بنایا۔

ایک باباجی پان منہ میں لئے لتا کے گانے گاتے سائیکل پر جارہے تھے۔ کہ اچانک ایک لڑکی سے ٹکرا گئے۔لڑ کی بھی غصے سے آگ بگولہ ہوگئی کیونکہ اس نے صبح صبح ہی خود کو بغیر میک اپ دیکھ لیا تھا۔
بولی:بابا جی اتنی لمبی داڑھی رکھ کر شرم نہیں آتی۔ٹکر مارتے ہو۔ انسان بنو سانڈ نہیں۔
بابا بھی فل موڈ میں تھے۔ کہنے لگے۔بیٹی یہ داڑھی ہے بریک نہیں۔
ساتھ اسکے بریک صحیح نہیں۔اب کمپنی کہ رہی تھی۔ ھماری سائیکل ہوتی تو موقع پر بریک لگ جاتی۔ اور بابا جی بھی بس دل پشوری کرتے ہوئے دیکھ کر گزر جاتے۔اب بس زرا سے برتن دھونے والے صابن سے نہ صر ف برتن دھوئے بلکہ شوہر زیادہ برتن نکالے تو اسے بھی دھو ڈالئے۔ اتنی مشکل سے ڈراموں سے باقی بچنے والے وقت میں آپ وہ برتن دھوئیں۔ یہاں تک کہ انہی ڈراموں کے ہاتھ سے نکلنے کے خوف کی وجہ سے آپ منہ تک نہیں دھوئیں۔
لیکن شوہر کواحساس ہی نہ ہو۔ کمپنی کہتی ہے۔ آپ رج کے ڈرامے دیکھیں اور کریں۔ لیکن صابن ذرا سا لگائیں برتن چمک چائیں گے۔برتن نہ بھی چمکے کمپنی کی قسمت تو چمک جائے گی آپ جیسے کسمٹر اور کہا ں ملیں گے۔
یہاں کے اشتہارات میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ بھلا اور کہاں نظر آسکتا ہے۔غٹا ہٹ بوتل پی جائیں اور اور ادائے بے نیازی سے پاوں زمیں پر ماریں لیجئے اب آپ کے علاقے کا ٹرانسفارمر نا صرف ٹھیک ہوگیا بلکہ بغیر بجلی پورا علاقہ روشن ہوگیاحکومت کو چاہئیے ٹرانسفروں میں کرنٹ کی بجائے ایسے تین چار نمونے بوتلوں سمیت بند کردیں۔
قو م کی بھی
ایسے نمونوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ اور ان کی بھی اپنی بشیر پلمبر عرف جان سے جان چھوٹ جائے گی۔
ایسے لڑکوں کے موبائل میں لڑکی کا نام بشیر پلمبر ہی لکھا ہوتا ہے۔ ویسے یہ جس طرح ٹرانسفارمر ٹھیک کرتے ہیں اس سے لگتا ہے وہ ٹرانسفارمر نہ ہوا مظلوم شوہر ہو گیا۔
کبھی بیوی کی کک سے ایکٹو ہوگیا۔کبھی ساسو ماں کے طعنے سنیاور مکمل ریچارج ہوگیا۔

ویسے شوہر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو اپنی بیوی کے ساتھ ہردفعہ شو دیکھنے سینما جاتے ہیں۔ اسے لوگوں کو سینما والے بھی کہ رہے ہوتے ہیں۔
سر آپ دونوں ہر شو میں ساتھ ساتھ۔ راز کیا ہے۔ شوہر کی بجائے بیوی کہتی ہے۔
ھم ہر شو اس لئے ساتھ دیکھتے ہیں تاکہ یہ اور بھی کچھ دیکھنے کے قابل رہ سکیں۔
دوسرے وہ جو ہر دفعہ بیوی سے پٹنے کے بعد بھی خوش رہنے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔
یہ کہتے ہوئے کہ سپورٹس مین سپرٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔لیکن ایسے شوہروں کو نہیں پتہ سپرٹ کا کام صرف اور صرف جلانا ہی ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک شوہر سے دوست نے پوچھا سنا ہے تم بہت خوش زندگی گزار رہے ہو آخر راز کیا ہے۔۔۔وہ کہنے لگا۔ ہاں تم تو جانتے ہو میری بیوی قومی لیول کی نشانے باز تھی۔اپنا ٹرینڈ اس نے گھر میں دکھانا شروع کر دیا ہے۔ جب کبھی وہ گلاس لے کرمجھے مارتی ہے اور مجھے لگ جائے تو وہ ہستی ہے۔
اور نا لگے تو میں ہنستا ہوں یہی ہے ھماری خوشی کا راز۔
آج کل اشتہارات میں بھی میاں بیوی کو زیادہ دکھایا جا رہا ہے۔ ایسے ہی ایک اشتہار میں دکھایا جارہا تھاکہ شوہر اور بیوی ناراض ہیں تب ایک کپ چائے سے ناراضی دور ہوجاتی ہے۔ ایک دن میں نے اچھے خاصے شیخ صاحب کو روتے ہوئے دیکھا۔وجہ پوچھی تو فرمانے لگے بیٹا ایک نصیحت کرتا ہوں عمل کرو گے تو فلاح پاو گے۔

تین چیزوں سے ہمیشہ بچ کر رہنا۔پہلا شیر کی دھاڑ، دوسرا بیوی کی تکرا ر اورتیسرا ہجڑے کی پھٹکار۔
میں پہلے اور تیسرے سے تو بچ گیا دوسرے سے نہیں بچ سکا اس لئے آج رو رہا ہوں۔
تو یہ مختصر تعارف تھا ان اشتہارات کا جو ھم روز دیکھتے ہیں اور دیکھ کر وہی چیز بھی لے آتے ہیں
جو وہ بیچنا چاہتے ہیں۔
شو ختم ہوا۔

Browse More Urdu Mazameen