Kabaddi Match Conference - Article No. 2006

Kabaddi Match Conference

کبڈی میچ کانفرنس - تحریر نمبر 2006

ماسٹر غنی صاحب نے آٹھویں جماعت کے بچوں کو گاؤں کے میلے میں کبڈی کے میچ دیکھانے کے بعد یہ حکم صادرفرمایا ۔ شاہد نے منہ بسورتے ہوئے ساتھ بیٹھے نوید کو آہستہ سے کہا ۔” لو جی یہ کیا بات ہوئی ۔ اتنا مزا آیا آج میلے کا ۔ سب کتنے خوش تھے

منگل 6 جنوری 2015

”بچو ۔ ابھی جو کبڈی میچ دیکھ کر آئے ہو ۔ اُس پر مضمون لکھو۔ جو سب سے اچھا لکھے گا اس کو انعام ملے گا اور وہ بھی کل صبح اسمبلی میں پورے سکول کے سامنے “۔
ماسٹر غنی صاحب نے آٹھویں جماعت کے بچوں کو گاؤں کے میلے میں کبڈی کے میچ دیکھانے کے بعد یہ حکم صادرفرمایا ۔
شاہد نے منہ بسورتے ہوئے ساتھ بیٹھے نوید کو آہستہ سے کہا ۔
” لو جی یہ کیا بات ہوئی ۔ اتنا مزا آیا آج میلے کا ۔ سب کتنے خوش تھے کہ ماسٹر صاحب کتنے اچھے ہیں۔ اب پتا چلا کہ ماسٹر صاحب لکھوانا مضمون چاہتے تھے اور بہانے سے میچ دکھا لائے ۔ ا ب مضمون کیسے لکھیں ؟“
”بچو گھبراوٴ نہیں ۔ جیسا بھی لکھنا آتا ہے لکھ دو کہ کیسے میلے میں گئے اور کبڈی میچ کیسے ہوا ۔اِس میں کیا مشکل ہے؟“ ماسٹر صاحب نے بچوں کو ہمت دلاتے ہوئے کہا
ماسٹر غنی صاحب ٹیچنگ کو عبادت گردانتے تھے اور نت نئے انداز میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔

(جاری ہے)


حسب ِسابق شاہد کا مضمون بہترین قرار دیا گیا اور ماسٹر صاحب نے ایگل کا پن تحفے میں دیا اور وہ بھی اسمبلی میں پورے سکول کے سامنے۔ پورے سکول میں چرچا ہو گیا اورہیڈ ماسٹر صاحب نے غنی صاحب اور شاہد دونوں کی خوب تعریفیں کیں۔
دو سال بعددسویں کے سالانہ امتحانات میں اردو کے پیپر میں مضمون "میرا بہترین دوست "لکھنا تھا
شاہد نے کچھ دیر سوچا اور پھر لکھنے لگا۔

”خرم میرا سب سے اچھا دوست ہے ۔اس میں بے پنا ہ خوبیاں ہیں جن میں ایک اہم اس کا کبڈی کا کھلاڑی ہونا ہے۔ مجھے آج تک اس کے گاوٴں کے میلے میں کبڈی کے میچ میں شاندار کھیل یاد ہے جو خرم کی پہچان بنا“۔
اس کے بعد شاہد نے پورا کبڈی میچ لکھ دیا اور میٹرک اچھی ڈویژن میں پاس کر لیا ۔
FAکے سالانہ امتحان میں کئی مضامین تھے جن میں سے ایک لکھنا تھا ۔
شاہد نے کافی سوچ بچار کے بعد "ناقابل فراموش واقعہ "کا انتخاب کیا اور لکھنا شروع کردیا ۔
”مجھے ہمیشہ سے کھیلوں کا شوق رہا ہے۔ ہمارے گاؤں میں دیسی کُشتیاں اور کبڈی میچ خصوصی دلچسپی کا باعث ہوتے تھے ۔ایک کبڈی میچ مجھے ساری زندگی نہیں بھول سکتا“۔ اس کے بعد پورا کبڈی میچ لکھ دیا ۔ اور شاہد FAبھی اچھے نمبروں میں پاس ہو گیا ۔

BAکے امتحان میں معامعلات قدرے مشکل ہوگئے ۔ کچھ اس طرح کے مضامین لکھنے کو کہا گیا ۔
1۔ فضائی آلودگی
2۔ عالمی امن میں اقوام متحدہ کاکردار
3۔ دیہاتی کلچر
شاہدنے فوری طور پر” دیہاتی کلچر“ کا انتخاب کیا اور لکھنے لگا ۔
”پاکستان کی 70% آبادی دیہات میں رہتی ہے اور دیہات کے کلچر کی خاص بات اس کے میلے ٹھیلے ہیں۔
ان میلوں میں دیہاتیوں کو خوب ہلہ گُلہ کرنے کا موقعہ ملتا ہے ۔گاوٴں کی زندگی میں میلوں ٹھیلوں کا سب کو انتظار رہتا ہے۔فصل کی کٹائی کے بعد یہ میلے دیہاتیوں کی دلچسپی کے بہت سے سامان مہیا کرتے ہیں۔ ان میلوں کی خاص بات دیہاتی کھیل ہیں ۔ خاص طور پر کبڈی میچ“۔ اس کے بعد شاہد نے کبڈی میچ پر پورا مضمون لکھ دیا اور ماسٹر غنی صاحب کے لئے خصوصی دعا کی۔
BAبھی پاس ہو گیا ۔
MAمیں لگتا تھا کہ ماسٹر غنی صاحب کا لکھوایا مضمون نہیں چلنے والا ۔ یہاں تو امتحان میں لکھنے کے لئے عجیب و غریب مضامین پوچھے گئے جن میں
1۔ سائنس کی ترقی میں مسلمانوں کا کردار
2۔ اردو ادب کاترقی پسند دور
3۔ ہوائی سفر
4۔کمپیوٹر انسانی ترقی یا تنزلی
کافی سوچ بچار کے بعد شاہد نے " ہوائی سفر "پر طبع آزمائی کا فیصلہ کیا ۔
لکھنا شروع کیا
”ایک دفعہ لاہور سے کراچی جانے کا اتفاق ہوا تو ٹرین اور بس کے طویل سفر کی بجائے ہوائی سفر کا انتخاب کیا ۔ لاہور ائر پورٹ سے قومی ائیر لائن میں زندگی میں پہلی دفعہ سفر کا موقع ملا ۔ سیٹ بُک کروانا، ائرپورٹ جانا، جہاز میں بیٹھنا اور خاص طور پر رَن وے سے تیزی سے بھاگ کر یکلخت فضا میں بلند ہونا، سب کچھ نیا اور دلچسپی کا باعث تھا۔
جوں جوں طیارہ فضا ء میں بلند ہو ا شہر مکان گاڑیاں سب چھوٹے ہوتے گئے ۔ میں جہاز کی کھڑکی سے باہر کے مناظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک ایک جگہ چونٹیاں سی رینگتی نظر آئیں ۔ ذرا غور سے دیکھا تو وہ ایک میدان تھا اور وہاں کبڈی میچ ہو رہا تھا“۔
اس کے بعد کبڈی میچ ۔۔۔۔۔۔اور شاہد MAمیں بھی پاس ہوگیا۔
ّ”ڈاکٹر صاحب جاپان میں ایک کانفرنس ہو رہی ہے“۔
ڈاکٹر عرفان افضل نے بتایا ۔
”کس موضوع پر ہورہی ؟“۔ہم نے پوچھا
”Organic Agriculture(نامیاتی زراعت ) پر ۔ اور ہمارا کام تو ہے ہی اس پر ہے“۔ ڈاکٹر عرفان نے زور دے کر کہا
”مگر میں تو کبھی بھی مکمل طور پر نامیاتی زراعت کے حق نہیں رہا اور نہ ہی کام کیا ہے ۔ مطلب ایسے فصلو ں کو اُگانا کہ کسی قسم کا کوئی بھی کیمیکل کا استعمال نہ ہو مثلاًکھاد ، جڑی بوٹیا ں اور بیماریوں اور کیڑے مکوڑوں کو ختم کرنے والی ادویات کا استعمال نہ ہو ۔
یہ کیسے ممکن ہے ایسے ملک میں جس کی آبادی مسلسل بڑھتی جارہی ہو اور 20کڑور تک جا پہنچی ہو۔ لوگوں کا پہلے پیٹ بھرنا ہے اور پھر کوالٹی کی بات اچھی لگتی ہے ۔ یورپ کو ہی یہ نامیاتی زراعت کے چونچلے اچھے لگتے ہیں۔
ہمارا لیکچر جاری تھا کہ ڈاکٹر عرفان نے ٹوکا۔”سر آپ کی بات درست مگر جاپان کانفرنس میں تو لازمی جانا ہے اور آپ کا مورنگا پر کام تو ہے ہی نامیاتی زراعت“
”آپ کسی حد تک کہ سکتے ہیں کہ مورنگا کے پتوں کے نچوڑ کا فصلو ں پر سپرے قدرتی اور نامیاتی ہے جس سے فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔
مگر ہم کھادیں تو استعمال کرتے ہیں “۔ ہم نے قدرے اتفاق کیا
”جی سر۔ تومیں کانفرنس کیلئے 2-3مورنگا کے ریسرچ پیپر بجھوادیتا ہوں۔ آپ کی مورنگا پر Presentation تو بنی ہوئی ہے“۔ڈاکٹر عرفان نے بات ہی ختم کر دی
جاپان کانفرنس میں ہم نے مورنگا کا استعمال فصلوں پر قدرتی طریقے سے پیداوار کے آضافے کے لئے بہت پسند کیا گیا اور سائنسدانوں نے کافی دل چپسی لی۔

”سر۔ ترکی میں نئی فصلوں پر ایک زبر دست کانفرنس ہو رہی ہے ۔ ہم بھی جائیں گے “۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے نہایت اشتیاق سے اطلاع دی
”یہ تو ٹھیک ۔ مگر وہاں کونسا کام سنائیں گئے ؟“
”سر مورنگا اور کنواہ دونوں نئی فصلیں ہی تو ہیں“
”ہاں ٹھیک ہے دونوں کے کچھ پرچے بھیج دیتے ہیں اور ترکی کی سیر بھی کرنے کا اچھا موقع ملے گا۔

”سر وہ جاپان والی Presentation کو تھوڑا تبدیل کر دیتا ہوں ترکی کانفرنس کے مطابق “۔ڈاکٹر حفیظ نے کام آسان کر دیا ۔
ترکی میں ہمارے مورنگا اور کنواہ کے کام کو بہت سرایا گیااور ہماری Presentation کو بھی بہت پسند کیا گیا ۔
”سر انڈیا میں Sustainable Agricultureپر ایک بین القوامی کانفرنس ہو رہی ہے“ ۔ ڈاکٹر محمد فاروق نے اطلاع دی
”جی میں نے دیکھی تھی ایک میل میں ۔
پر مشکل ہے ہماراکام اس کانفرنس میں Adjustہو سکے“
”سر کیسے نہیں ہو گا Sustainable Agriculture کا مطلب ایسی زراعت جس میں قدرت کے وسائل جتنے استعمال کریں ، وہ لوٹائیں بھی ۔ اور ایسی زراعت کریں جس سے زمین کی ذرخیزی برقرار رہے اور اس کے لئے مورنگا کی بطور فصل کاشت اور مورنگا کے پتوں کی سبز کھاد ایک بہترین عمل ہے۔ اور مورنگا کا فصلوں پر استعمال بھی پسند کیا جائے گا“۔
ڈاکٹر فاروق نے حل بھی پیش کردیا۔
”میں کچھ پیپر کانفرنس میں ارسال کر دیتا ہوں آپ ترکی والی مورنگا کی Presentationمجھے میل کر دیں، میں اُس کو Sustainable Agriculture کے مطابق کر دوں گا“۔
انڈیا میں سیر بھی کافی ہوئی۔ سکھوں سے بھی مل لیا اور کانفرنس میں مورنگا کے استعمال پر Presentation کو سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔
”ڈاکٹر صاحب چین میں الیلوپیتھی کانفرنس ہو رہی اور اس دفعہ آپ بھی ساتھ چلیں“۔
ڈاکٹر زاہد عطاء چیمہ صاحب نے کہا
”مگر سر میں نے تو کبھی الیلوپیتھی پر کام ہی نہیں کیا ؟“۔ میں نے ڈر تے ڈرتے کہا
”آپ جو فصلوں پر مورنگا کا سپرے کرتے ہیں ۔وہ کیا ہے ؟“۔
”مگر سر الیلوپیتھی میں زیادہ کام تو پودوں سے جڑی بوٹیاں تلف کرنے کا ہوتا ہے حالانکہ الیلوپیتھی میں ایک پودے کا دوسرے پر اچھا یا برا اثر دونوں شامل ہوتے ہیں“۔
ہم نے عرض کیا
”میرا بھی یہی مقصد ہے ۔آپ وہاں یہ بتائیں کہ جن فصلوں کا نچوڑ زیادہ مقدار میں دوسرے پودوں کے لئے زہر ہوتا ہے، وہی کم مقدار میں فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کرتا ہے۔اوریہی دراصل الیلوپیتھی ہے ۔آپ کا مورنگا کا کم مقدار میں فصلوں پر استعمال سے پیداوار میں اضافہ دراصل الیلوپیتھی ہی تو ہے“۔ ڈاکٹر چیمہ صاحب نے قائل کرتے ہوئے کہا۔

ہم نے چین میں مورنگا کے پتوں کا محلول کا استعمال پیش کیا اور ساری دنیا کے سائنسدانوں نے تسلیم بھی کیا اور سراہا بھی۔
اس کے بعد ہم نے تھوڑی بہت تبدیلی سے” مورنگا کے نچوڑ کا فصلوں پر استعمال“ مندرجہ ذیل ملکی اور غیر ملکی کانفرنسوں میں کامیابی سے پیش کیا
” موسم کی سختیوں کا فصلو ں پر اثر“
” کلراٹھی زمینوں پر اچھی پیدوار کے طریقے“
”موسم کی تبدیلی کا پیداوا ر پر اثر“
”بیج کے اگاؤ میں اضافہ کے جدید طریقے“
”زمین کی زرخیزی میں اضافہ“
زیادہ حیرت تب ہوئی جب ہمیں” طبی فصلوں“، ”ادویاتی فصلوں“ کی کانفرنسوں میں مورنگا کا کام کے لئے مدعو کیا گیا
پچھلے دنوں ڈاکٹر عبدالواحد نے Ethno-botanyپر ایک کانفرنس میں ہمیں مورنگا پر کام کے لئے مدعو کیاکہ پودوں کیمعاشی فوائد میں مورنگا بھی آتا ہے۔

جیسے شاہد نے کبڈی میچ مضمون کو مڈل سے MAتک ہر موضوع میں ایسے استعمال کیا کہ پاس ہوتا گیا۔اسی طرح ہمارا مورنگا بھی ایک ایسا نگینہ ہے جو زراعت کی ہر انگوٹھی میں ایسے فٹ ہوتا ہے گویا بنا ہی اس کے لئے گیا ہے۔ فنکاری ہی یہ ہے کہ بات کو ایسے انداز میں پیش کرو اور صرف وہ حصہ پیش کرو جو کانفرنس کا موضوعہو ۔ مگر ظلم تو یہ ہے کہ حکمت سے عاری زیادہ تر سائنسدان ہر کانفرنس میں ایک ہی Presentationموضوع ، حالات اور سامعین کو دیکھے بغیر طوطے کی طر ح رٹا ہوا مضمون پڑھے جاتے ہیں جو کہ لوگو ں تک کو یاد ہوچکا ہوتا ہے اور نئے پن سے عاری لیکچر سامعین کے لئے سزا بن جاتا ہے جیسے ہمارے ٹیلیویژن چینلوں پر ٹاک شو میں ہر روز موضوع تو نیا ہوتا مگر باتیں روز وہی۔
ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، اپنی پارٹی اور اپنے مضحکہ خیز لیڈروں کی فرضی خوبیاں بیان کرنا ۔

Browse More Urdu Mazameen