Mujrimana Harkatein - Article No. 2261

Mujrimana Harkatein

”مجرامانا“ حرکتیں…!! - تحریر نمبر 2261

ایک اخبار کی خبر کے مطابق غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آکر سینکڑوں نو جوان آپریشن کرا کے ہیجڑے بن گئے۔ انکل سرگم کا یہ خبر پڑھ کر کہنا ہے کہ

جمعرات 30 اگست 2018

22 فروری کے ایک اخبار کی خبر کے مطابق غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آکر سینکڑوں نو جوان آپریشن کرا کے ہیجڑے بن گئے۔ انکل سرگم کا یہ خبر پڑھ کر کہنا ہے کہ اگر روز گار حاصل کرنے کے لیے ہیجڑا بننا پڑتا ہے تو پھر ان نو جوانوں کی جنس کے بارے میں شک و شبہات بڑھ سکتے ہیں، جو روزگار حاصل کر چکے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ پڑھا لکھا بے روزگار کچھ بھی بننے کو تیار نظر آتا ہے۔

اس سے پہلے ہم نے بے روزگار نو جوانوں کا غنڈہ بننا، چور ڈاکو بننایا نشئی بننا تو سنا تھا، مگر روزگار کے حصول کے لئے ہیجڑا بننے کا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے بے روزگار نوجوانوں کی ہیجڑا بننے کی ترغیب دینے میں یا تو خاندانی منصوبہ بندی والوں کی سرپرستی یا سپانسر شپ حاصل ہے اور یا پھر ان نو جوانوں نے پی ٹی وی پر میرا ، نرما، فلم میں صائمہ اور لاہور کے تھیٹر میں زنانہ شکل میں مردانہ فنکاروں کو سٹیج پر ہیجان خیز ڈانس کرے ہوئے دیکھ لیا ہے، جو اپنے فنانسروں اور سپانسروں کے اشاروں پر ناچ کے روزی کما رہے ہیں۔

(جاری ہے)

کسی زمانے میں ناچ گا کر روزی کمانے والوں کو کنجر اور میراثی کہا جاتا تھا۔ اب انہیں ایک عرصے سے کچھ نہیں کہا جا رہا۔ لوگ انہیں کچھ کہنے کے بجائے ان سے کچھ سننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہماری حکومتوں نے عوام کی ذہنی غربت اور آداب کی مفلسی کو بھانپتے ہوئے عوام کی ”فلاح و بے ہود“ کے لئے ٹی وی کے ذریعے مجرے گھر گھر میں پہنچانے کا عزم پورا کیا، تاکہ عام لوگ بھی اپنے بچوں کو آداب و تہذیب سے روشناس کرا سکیں۔
چونکہ تہذیب و ثقافت کے معاملے میں لاہور شہر کو ”باداہ ثقافت“ کا درجہ حاصل ہے اور اس شہر کی ”تہذیب و ثقافت “اندرون شہر کے بارہ تاریخی دروازے توڑ کر تھیٹر کی شکل میں پورے شہر میں پھیل چکی ہے ۔ چنانچہ لاہور کے شہریوں کو تو زندہ تہذیب و ثقافت دیکھنے اوراپنانے میں مشکل پیش نہیں آتی، البتہ لاہور سے دور رہنے والے اس ”ثقافت“کو نزدیک سے دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔
عوام کی ثقافت پیاس بجھانے کے لئے حکومت نے ہر گلی محلے اور گھر گھر ”ثقافتی سبیل“ لگانے کا کام پایہ ء تکمیل تک پہنچایا، جسے کیبل کا نام دیا گیاہے۔ گھر گھر پاکستانی ثقافت پہنچانے کے اگلے مرحلے میں حکومت نے بذریعہ پانگدی عوام کے ”دلوں“ سے انڈین چینلز نکال کر ان کے گھروں مین کیبل ڈلوا دی، تاکہ وہ انڈین چینلز کے نیم برہنہ پراپیگینڈے سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں۔
حکومت کی اس حکمت عملی سے ان تماش بینوں نے جن کے گھروں میں ڈش نہیں ہے، سکھ اور انڈین چینلز غور سے دیکھنے کے عادی تماش بینوں نے دکھ کا سانس لیا۔ وہ کیبل آپریٹرز جو انڈین چینلز کی فحاشی کے ذریعے حلال کی روزی کما رہے تھے، انہیں اپنا اور ٹی وی سکرین کا پیٹ برنے کے لئے مجبور اََ اس پاکستانی فحاشی کا سہارا لینا پڑا جسے پنجابی سٹیج ڈرامہ کہا جاتا ہے۔
کیبل پر بلادریغ اور بلا سنسر دکھلائی جانے والے ان سٹیج ڈراموں میں انڈین چینلز جیسا ننگا تن تو نہیں ہوتا البتہ بان کا گندہ پن بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ حال یہ ہے کہ پہلے انڈین چینلز پر کھائے جانے والے ہیجان خیز ناچ گانے بچے بڑی خاموشی سے دیکھتے تھے اب پنجابی سٹیج ڈرامہ دیکھتے ہوئے وہ اپنے والدین سے ذ معنی الفاظ کے معنی بھی پوچھتے ہیں، جس سے والدین کے سر شرم سے تھوڑی دیر کے لئے جھک جاتے ہیں۔
کیبل پر دکھائے جانے والے سٹیج ڈرامے اور مجرے اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ انہیں دیکھنے کی جرأت اب وہی کر سکتا ہے ، جو گھر میں اکیلا ہو۔ آبادی کے ھساب سے اب گھر میں اکیلا ہونا تو تقریباََ ممکن نہیں رہا اور اگر کوئی اکیلا گھر میں بیٹھا چوری چھپے کیبل مجرے دیکھ بھی رہا ہواور اچانک گھر میں کوئی آجائے تو اسے جلدی مں چینل یوں تبدیل کرنا پڑتا ہے ، جیسے اپنے ہی گھر میں چھاپہ پڑ گیا ہو۔
بقول سر گم وہ دن دور نہیں، جب نا بالغ بچے اپنے گھر میں کیبل پر پنجابی ڈرامے اور گلابی مجرے دیکھتے ہوئے اپنے والدین کے ہاتھوں ایسی ”مجرامانہ حرکتیں کرتے پکڑے جائیں گے۔ کیبل مجروں کے ساتھ ساتھ سرکاری ٹی وی پر پرائیویٹ چینلز کے قبضہ گروپ نے جس قسم کے غیر معاری پروگرامز شروع کر رکھے ہیں، انہیں دیکھ کر ناظرین کو پھر سے انڈین چینلز کی یادستانا شروع کر دی ہے۔
بندوق پستول اور کلاشنکوف کی گولیوں کی بوچھاڑ، گنڈا سوں کی للکار چیخ وپکار گھنگھروؤں کی جھنکار ہماری پنجابی فلم کی ایک فخر یہ پیشکش بن چکی ہے۔ کچھ دن پہلے کسی نے اسلام آباد پولیس کے ریسکیو سن فائیو پر فون سے اطلاع دی کہ ساتھ والے گھر میں ڈاکو گھس آئے ہیں، جو کھلم کھلا للکارتے ہوئے لوٹ مار کے ساتھ ساتھ قتل و غارت کر رہے ہیں۔ ریسکیوں سن فائیو والے جب موقعہ واردات پر پہنچے تو انہوں نے گھر کے مکینو ں کو خیر خیریت سے پایا۔
تحیقی کرنے پر پتا چلا کہ اس گھرمیں ٹی وی پر کوئی پنجابی فلم چل رہی تھی۔ ہمارا یہ کالم لکنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ ہم اپنے اس کالم کے ذریعے وزیر ثقافت ، چیئر مین اور ایم ڈی ٹٰ وی کی بائیس چوبیس گریڈ والی قیمتی توجہ اس گھٹیا صورتحال کی طرف دلوائیں۔ اس لئے کہ ان کے سٹیٹس کے مطابق ان کا پی ٹی وی کے اور کیبل پر زبردستی دکھلائے جانے والے پروگرامز دیکھنا ویسے بھی نہیں بنتا۔ ان کی تو جہ تو پہلے ہی سی این این ، بی بی سی او ر سیٹلائٹ کے دیگر ولایتی پروگرام دیکھنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ چنانچہ ہماری یہ تحریر اور کیبل پر چلنے والے پروگرام ان کا کچھ بگاڑنے سے تو رہے۔ ویسے بھی پرائیویٹ چینلز والوں کا کام ارباب اختیار کے لیے کچھ بنانا ہوتا ہے ان کا کچھ بگاڑنا نہیں ہوتا۔

Browse More Urdu Mazameen