Naly Ko Rasa Bandhny Waly - Article No. 2136

Naly Ko Rasa Bandhny Waly

نالے کو رسَا باندھنے والے - تحریر نمبر 2136

اصل میں قصور ہمارا ہے ہم پانی کے لیے کالم پر کالم تو لکھتے رہے لیکن یہ وضاحت کرنا بھول گئے کہ۔۔۔۔۔۔۔ ہم پانی نلوں کے راستے چاہتے ہیں،براہِ راست نہیں کیونکہ ہم کوئی گوالے تھوڑاہی ہے،نہ پانی کے جانور ہیں

جمعرات 7 دسمبر 2017

ابنِ انشاء:
بے شک ہم نے پچھلے دنوں اخبار میں پڑھا تھا کہ وزیر خزانہ عقیلی صاحب نے عظیم تر کراچی کو پانی کی بہم رسانی کے منصوبے کے لیے ہر ممکن مدد دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن ہمیں یہ گمان نہ تھا کہ اس منصوبے پر اتنی جلدی عمل ہوگا اور ہماری انقرہ سے واپسی کاانتظار بھی نہ کیا جائے گا،عقیلی صاحب کا بیان پڑھنے کے بعد ہم کئی دن کپڑے اُتارے ٹونٹی کھولے نل کے نیچے بیٹھے رہے۔
آخر مایوس ہوکر چل دیے کہ اچھا بحیرہ روم میں نہالیں گے،آبنائے باسفورس میں ڈبکی لگالیں گے،ہمارے جانے کی دیر تھی کہ پانی کھل گیا اور ایسا آسمان کا چھیر پھاڑ کر کھُلا کہ لوگوں کے گھروں میں ایک غسل خانے تو ضرور سوکھے رہے باقی ہر جگہ جل تھل ہوگیا ہم یہ خبر پاتے ہی بھاگے بھاگے کراچی واپس آئے اور جلدی سے نل کھولے بالٹی آگے کی۔

(جاری ہے)

اس میں سے ایک سرد آہ نکلی۔

ایک مصرعہ ٹپکا۔ جو کسی کے کام نہ آسکے
میں وہ ایک مُشتِ غبار ہوں
اصل میں قصور ہمارا ہے ہم پانی کے لیے کالم پر کالم تو لکھتے رہے لیکن یہ وضاحت کرنا بھول گئے کہ ہم پانی نلوں کے راستے چاہتے ہیں،براہِ راست نہیں کیونکہ ہم کوئی گوالے تھوڑاہی ہے،نہ پانی کے جانور ہیں ہمارا خیال تھا کے ڈی،اے والوں نے عظیم تر کراچی کے لیے پانی بہم رسانی کا منصوبہ عقیلی صاحب کو پیش کرتے ہوئے یہ بات صاف کردی ہوگئی کیونکہ عقیلی صاحب کراچی میں نہیں رہتے،وہ ان رموز کو کیا جانیں کہ ہمیں پانی کی کتنی ضرورت ہے اور کس طور ضرورت ہے خیر بندہ بشر ہے۔
غلط فہمی ہوہی جاتی ہیں بہر حال آئندہ کے لیے یہ ملحوظ رکھا جائے کہ ہمیں پانی فقط اتنا چاہیے کہ خود پی سکیں اتنا نہیں کہ ہمیں پی جائے۔ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ غلط فہمی خود ہمیں ہوتی ہے۔پانی کی اس ریل پیل سے جو ہمارے بعد کراچی میں ہوئی،عقیلی صاحب کا کچھ تعلق نہیں۔عظیم تر کراچی کے لیے پانی کا عظیم تر منصوبہ تو ابھی تک ان کی ٹرے میں سوکھا پڑا ہے۔
یہ کارگزاری کہیے یاکارستانی کارکنانِ قضاو قدر کی ہے ان بزرگوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے محکمہ موسمیات پر بات ڈالی کہ ہم تو جو کچھ کرتے ہیں ان کی پشتیں گوئی سن کرکرتے ہیں اس سے سر مو انحراف کی ہمیں مجال نہیں ۔کے۔ڈی۔اے والے اپنا قصور صرف،،،،اس حد تک مانے کہ ہم نے ابرِکرم کا پرنالہ فقط ابنِ انشاء کے گھر پر کھولنے کی استدعا کی تھی کیونکہ یہی بڑھ بڑھ کر کالم لکھتا تھا اور محترم کے دنوں میں بھی پانی کے لیے ہمیں تنگ کرتا تھا،باقی مخلوق محض اس کے ہمسائے میں رہنے کی وجہ سے ماری گئی بُری صحبت کا یہی انجام ہوتا ہے بھینس کالونی کے گوالوں نے اقرار کیا کہ بے شک ہم چاہتے تھے کہ دودھ کی کمی پوری ہونے کی کوئی سبیل نکلے لیکن یہ منشا ہماری بھہ نہ تھی کہ اس سبیل کی ٹونٹی پوری کھول کر اس زنّاٹے کا تریڑا دیا جائے معلوم ہوتا ہے ہماری دعا کا پتہ غلط ہوگیا اور یہ عالم بالا پر اس شاعر کو موصول ہوگئی جس نے لکھا تھا۔

رونے پہ باندھ لے جو مری چشمِ ترکمر
کسی زمین؟فلک پہ ہوپانی کمر کمر چند ماہ اُدھر کی بات ہے کہ لاہور مینہ برسا اور چھاجوں برسا۔لوگوں کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑا تو ہر کسی نے یہ جتانے کی کوشش کی کہ ویسے تو من آنم کہ من دانم۔لیکن یہ بارش بندے نے برسوائی ہے،مجھ ہی گنہگار نے اللہ میان کو اشارہ کیا تھا کہ ہاں اب اجازت ہے ہمارے دوست میاں انتظار حسین نے طبعی انکسار کی بنا پر اپنا نام تو نہ لیا ہاں ساری داداپنے اور ہمارے دوست ناصر کاظمی کی جھولی میں ڈال دی کہ انہوں نے ایک غزل لکھی تھی وہ ہم نے ٹیلی ویژن پر ان سے گوائی اور صاحبو،،،بادلوں کو اُمڈ گھمڈ کر آتے ہی بنی۔
اس تقریب سے ہم نے بخاری صاحب سے غرض کیا تھا کہ کراچی میں ٹیلی ویژن کے خداوند آپ ہیں یہاں بھی تان سینوں اور بیجوباوروں کی کمی نہیں آپ بھی کسی کو پکڑیے ٹیلی ویژن کا اسٹوڈیو تو ابھی نہیں بنا لیکن کھمبے تو گڑ گئے ہیں،ایک کھمبے تو گڑگئے ہیں ا یک کھمبے پر اسے چڑھا کر حکم دیجیے کہ ملہار گا،تجھے معقول پیسے دیں گے۔لیکن پہلے چھتری تان کے ورنہ بھیگ جائے گا کیا عجب بخاری صاحب نے ہماری یہ فرمائش ریڈیو کے فرمائشی پروگرام کو بھیج دی ہو جو اب تک ان کی بات مانتے ہیں کیو نکہ انقرہ میں جمعرات 27 جولائی کو ہم نے بارش کی تباہی کا سن کر فکر مندی سے ریڈیو کھولا تو یہاں گیارہ بجے دن کی خبریں ہورہی تھیں معلوم ہوا قیامت برپا ہے جونہی خبریں ہوئیں پہلا ریکارڈ یہی سنائی دیا۔
خیر ہمیں شاعری اورنغمے کی تاثیر سے انکار نہیں اور یہ بھی تسلیم کہ ہمارے ہاں ایسے باکمال شاعر اور نغمہ سراگزرے ہیں کہ گلیوں کو چوں میں صدقہ لگاتے پھرتے تھے بارش برسوالو بارش آپ کو اپنے لان میں پانی دینا ہے تو آواز دی کہ میاں ذرا آدھ انچ بارش چاہیے۔ کتنے پیسے لوگے؟معاملہ اس نے فوراً برساتی اوڑھ کان پر ہاتھ رکھ کر ایک تان لگائی ،آدھا انچ بارش چکی تو خود بہ خود دھوپ نکل آئی۔
پرانے زمانے میں ایک بات یہ اچھی تھی کہ بارش زیادہ ہوجائے جیسی کراچی میں ہونے لگی ہے تو نالے کو رسا باندھنے والے بھی مل جاتے تھے اب کسی ناصر کاظمی یا بڑے بارش علی خان سے کہیے تو کہ میاں ذرا اورنگی نالے کو رسا باندھ اور روک ۔جھونپڑیاں بہی جارہی ہیں،آج کل یہ فن شریف ناپید ہوگیا،جس طرح آتش بازی پر پابندی لگنے کے بعد سے دیپک راگ گانے والے ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔

Browse More Urdu Mazameen