Rahim Yar Khan Multani - Article No. 2066

Rahim Yar Khan Multani

رحیم یار خان ملتانی - تحریر نمبر 2066

یہ سرائیکی کے بڑے گرج دار شاعر ہیں اس لیے باذوق لوگ ان کی بے موسمی برسات سے محروم رہتے ہیں۔اونچی آواز سے اپنا شعر منوانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔۔۔

منگل 28 جون 2016

علی رضا احمد :
یہ سرائیکی کے بڑے گرج دار شاعر ہیں اس لیے باذوق لوگ ان کی بے موسمی برسات سے محروم رہتے ہیں۔اونچی آواز سے اپنا شعر منوانے کی کوشش میں رہتے ہیں جس میں وہ خاطر خواہ کامیاب بھی رہتے ہیں۔ ان کے آباو اجداد ملتان کے رہنے والے تھے لیکن موصوف رحیم یار خان میں پیدا ہوئے۔ سرائیکی کے علاوہ اردو میں بھی کئی شعر ایجاد اور اخذ کر چکے ہیں۔
چونکہ ان کی شعری لیبارٹری غسل خانہ ہے اسی لیے ان کا ہر شعر ٹھنڈا ٹھنڈا ہوتا ہے اور اس وقت انہیں باقی دنیا لُوزدہ معلوم ہوتی ہے۔ ان کا مشہور شعر ہی
میں ایتھاں تے سجن ملتان اے
کتھے میں تے کتھے مینڈی جان اے
گرج دار آواز میں ان کا ہر شعر ببر شعر لگتا ہے اور ان کے مقابلے میں مشہور شاعر ”فوکر“ کا شعر بھی بکری معلوم ہوتا ہے لیکن یہ پھر بھی ایک گھاٹ پر پانی پیتے معلوم ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اپنے دولت کدے پر بھی مشاعرے کا اہتمام وقتاََ فوقتاََ کرتے رہتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ شاعرات مشاعرے کی زینت بنیں۔ اداکار دردانہ رحمن جو کہ ایک شاعرہ بھی ہے ایک دفعہ ان کے مشاعرے میں آچکی ہے لیکن دوبارہ آنے سے معذرت خواہ ہے کیونکہ ملتانی صاحب اس کے سامنے مسلسل یہ مصرعہ گنگناتے رہے۔”جانی رات رہ پو‘ تانگاں جدائی اے“۔

Browse More Urdu Mazameen