Roza Na Azaan Naam Mera Ramzan - Article No. 2065

Roza Na Azaan Naam Mera Ramzan

روزہ نہ اذان ،نام مرا رمضان - تحریر نمبر 2065

میاں رمضان کہتا ہے کہ روزہ کھولنے کے لئے ضروری نہیں کہ روزہ رکھا بھی جائے۔ بقول اس کے روزہ بند کرکے کھولا نہیں جاتا لیکن رکھ کر ضراور کھولا جاتا ہے۔

پیر 27 جون 2016

علی رضا احمد:
میاں رمضان کہتا ہے کہ روزہ کھولنے کے لئے ضروری نہیں کہ روزہ رکھا بھی جائے۔ بقول اس کے روزہ بند کرکے کھولا نہیں جاتا لیکن رکھ کر ضراور کھولا جاتا ہے۔ حقیقت میں روزہ امراء کو بہت کم لگنا اور محسوس ہونا چاہئے کیونکہ انہیں بہت سی معاشرتی آسانیاں میسر ہوتی ہیں‘ لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔
آپ نے سنا ہوگا!
” آئیں سردیاں مریں غریب‘ آئیں گرمیاں مریں غریب“
موسموں کے علاوہ غریبوں کے لئے اور بھی کئی آزمائشیں ہیں۔ آپ نے تویہ بھی سنا ہوگا کہ غریبوں نے روزے رکھے اور دن بڑے ہوگئے۔ بہرحال روزہ صحت‘ ثواب اور صبرسکون کے لئے سب سے اعلیٰ عبادت ہے۔ اس عبادت کے لئے صرف دل بڑا رکھنا پڑتا ہے۔ پھر ہر مشکل ادانیٰ معلوم ہوتی ہے‘ چاہے آٹھ پہر کا روزہ ہی کیوں نہ ہو۔

(جاری ہے)


میرے دوست میان رمضان کانام اس لئے رمضان رکھا گیا کہ وہ رمضان میں پیدا ہوا تھا حالانکہ وقت کے اعتبار سے بطور نام میاں افطار بھی رکھا جاسکتا تھا لیکن شاید اس کے کھولنے کی مشکلات کی وجہ سے اس نام کو چنا نہیں گیا․․․․․․ وہ کہا کرتا ہے کہ شکر ہے کہ میں صفر کے مہینے میں پیدا نہیں ہوا‘ ورنہ میرے والدین کو میرا نام رکھنے کے سلسلے میں خاصی دشواری کاسامنا کرنا پڑتا․․․․․․ لیکن شاید میاں صفر نام کی وجہ سے اس کو روزے نہ رکھنے کا بہانہ مل جاتا کیونکہ” سفر“ میں روزہ تو ویسے بھی․․․․․․
اسے رمضان میں پیداہونے کا ایک فائدہ حاصل ہوا وہ یہ کہ اب اسے روزہ بالکل بھی نہیں لگتا کیونکہ وہ روزہ رکھتا ہی نہیں! لیکن وہ روزہ کھولنے میں بہت مہارت رکھتا ہے اور ” فاسٹ“ کھولتا ہے۔
وہ روزہ نہ رکھنے کی دو وجوہات بیان کرتا ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ روزہ اس لئے انہیں رکھتا کہ اس کے پاس روزہ کھولنے کی امپورٹڈ مشین نہیں حالانکہ اس سلسلے میں وہ کئی دفعہ باڑے کے چکر بھی لگاچکا ہے لیکن اسے اچھی سی گھڑی کہیں سے بھی نہیں ملی۔ اس لئے جب وہ کسی کی جانب سے دی گئی افطار پارٹی میں روزہ کھول رہا ہوتا ہے تو ہمیں یہ ڈر محسوس ہورہا ہوتا ہے کہیں وہ اپنا ناکردہ روزہ کھولتے ہوئے اپنی گراری چوڑی‘ یا واشرکمانی نہ تڑوا بیٹھے․․․․․․ وہ روزہ کھولتے ہوئے تو کھولتے ہوئے سالن میں کودنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
اس کے روزہ نہ رکھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اسے دو بیماریاں بھی لاحق ہیں پہلی یہ ہے کہ اس گنجے پن کا ایک پرانا اور مستقل مرض براجمان ہے اور اسے دوسری بیماری بھولنے کی ہے۔ اسے یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ وہ کہیں روزہ رکھ کر کھولنا بھول نہ جائے۔
لہٰذا اب کی کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ کم ازکم افطار کے ثواب کا موقع تو ہاتھ یا منہ سے جانے نہ دے میاں رمضان میں دو عادتیں بہت پریشان کن ہیں۔
پہلی یہ کہ وہ بہت کنجوس ہے۔ اگر آپ رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں بھی اس کے گھر جائیں تو آپ کو اس وقت بھی رمضان کے مہینے کاہی احساس ہوگا جب وہ آپ کو پانی تک نہیں پوچھتے گا۔ اس نے آپ کو پانی کاکیا پوچھنا اس کے تو اپنے بچے بھی آپ کو لب خشک ہیں ملیں گے‘ بلکہ وہ تو اپنے بوڑھے باپ میاں رجب کو بھی پورا سال اسی امتحان میں ڈالے رکھتا ہے۔
وہ اپنی والدہ شعبان بی بی کاخیال رکھنے کی بہت کوشش کرتا ہے لیکن یہاں اس کی بیوی آڑے آجاتی ہے۔
اس کی ایک دوسری خراب عادت کا احوال یہ ہے کہ وہ سوال کا جواب بھی سوال میں ہی دیتا ہے۔ آپ اسے پوچھیں کہ کیا تمہارا بلڈہائی رہتا ہے؟ تو وہ آپ سے بھی یہی پوچھے گا کہ تمہارا مطلب ہے کہ میرا بلڈ ہائی ہوکراوپر پانی ٹینکی میں رہتا ہے؟ اسی طرح افطار پارٹی میں آپ اسے سے پوچھیں کہ میاں صاحب کیاآپ کا روزہ ہے؟ تو وہ بھی اسی لمحے آپ سے یہ پوچھے گاکہ کیا تمہارا روزہ تھا؟ اگر آپ اسے کہیں کہ آج میرا دل کسی بیوقوف سے ملنے کو کررہاتھا تو وہ بھی فوراََ یہی فقرہ دہرائے گا۔
اگرآپ اس سے یہ پوچھیں کہ دو اور دوکتنے روزے ہوتے ہیں تو وہ کہے گا کہ چار افطاریاں․․․․․․
میاں رمضان کے نام کے ساتھ میاں آنے کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ جب یہ پیدا ہوا تو ان دنوں سخت گرمیاں تھیں بلکہ گرمیاں ہی بیوی کے ” در+میاں “ حائل تھیں اس لئے اس کی بیوی بھی میاں نہ روی سے کام نہیں لیتی․․․․․ کیونکہ یہ میاں داد کاقریبی عزیز ہے اس لئے ہم اسے ” بے شر+میاں “ بھی کہ لیتے ہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ میاں رمضان بغیر کسی شک کے گرمیاں اور بے شرمیاں کا حسین امتزاج ہے۔
حالات اور واقعات سے ثابت ہوتا جارہا ہے کہ میاں رمضان بڑااصولی آدمی ہے۔ اس کا ایک اصول یہ ہے کہ وہ کبھی میٹھی چیز نہیں پیتا لیکن کھا ضرور لیتا ہے۔ اگ کبھی مجبوراََ اسے میٹھی چیز پینا پڑجائے تروہ اس میں احتیاطاََ سکرین کی گولی بھی ضرور ڈالتا ہے‘ یہ بھی اس کی اصول پسندی کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔
ایک دفعہ اس نے اپنے کسی دوست سے دس ہزار روپے ادھار مانگے، لیکن اس لمحے ا س کے دوست کی جیب سے صرف سات ہزار روپے نکلنے ۔ اگلے دن میاں رمضان بڑے غصے سے اس کے گھر آکر کہنے لگا کہ اس کے ذمے باقی جو تین ہزار روپے کا قرضہ واجب الادا ہے وہ اس کی ادائیگی کافوری انتظام کرکے اس ذمہ داری سے جلدی سبکدوزش ہوکیونکہ قرض اور فرض کی ادائیگی فوری ہونا ضروری ہے․․․․․․․․
پچھلے رمضان کے اختتام پر کوئی شخص اس سے زبردستی ایک ہزار کی عیدی لے گیا۔
ہوایوں کہ وہ اپنی دکان پر بیٹھا تھا کہ کسی شخص نے آکر ان سے اڑھائی سوروپے کا سودا لے کر ان کو ہزار روپے کا نوٹ دیااور میاں رمضان نے اسے سات سوپچاس روپے واپس کردئیے۔ اس کے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ شخص ایک ہزار کاجعلی نوٹ تھماگیا ہے۔ اس واقعہ کے بارے میں میاں رمضان کہنا ہے کہ یہ شخص زندگی میں پہلی مرتبہ مجھ ناچیزسے عیدی لے گیا ہے۔ بہرحال ہم اس کی ان عادات کی وجہ سے ” روزہ نہ اذان ‘ نام مرارمضان“ کہاکرتے ہیں۔

Browse More Urdu Mazameen