Wazeer Bayabn - Article No. 2272

Wazeer Bayabn

وزیر بیان - تحریر نمبر 2272

اخبار پڑھ کر ہمیں تو لگتا ہے ہر وزیر ہی وزیر بیان ہے ۔ایک سیاست دان کی سانس اکھڑ رہی تھی۔آکسیجن لگا نے سے بھی بہتر نہ ہوئی تو اس کا پی سے ایک صحافی کو پکڑ لایا۔سیاست دان موصوف نے بیان دیا تو ان کی سانس میں سانس آئی ۔

ہفتہ 15 ستمبر 2018

ڈاکٹر محمد یونس

اخبار پڑھ کر ہمیں تو لگتا ہے ہر وزیر ہی وزیر بیان ہے ۔ایک سیاست دان کی سانس اکھڑ رہی تھی۔آکسیجن لگا نے سے بھی بہتر نہ ہوئی تو اس کا پی سے ایک صحافی کو پکڑ لایا۔سیاست دان موصوف نے بیان دیا تو ان کی سانس میں سانس آئی ۔ان کے بیان روکنے سے وہی نتیجہ نکلتا ہے جو سانس روکنے سے اور ہماری عرصہ سے خواہش ہے کہ ان کو خاموش دیکھیں ۔

پہلے خاموشی عقل مندی کی دلیل ہوتی تھی‘ اب خاموشی عقل مند کی دلیل ہے ۔ایک بار ایک پریس فوٹو گرافر نے ہمیں خالد کھرل صاحب کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا:” اس تصویر میں وہ بہت سی خوبصورت لگ رہے ہیں ۔“ہم نے پوچھا :”اس میں کیا خاص بات ہے ۔”فوٹو گرافر بولا:” اس میں ان کا منہ بند ہے ۔“برطانیہ میں ایک تصویر ی مقابلہ ہوا تھا جس میں نایاب ترین لمحوں کی تصویریں تھیں ۔

(جاری ہے)

ان میں جس تصویر کا حوصلہ افزائی کا انعام ملا‘وہ اس فوٹو گرافر کی سا س کی تھی اور تصویر میں سا س چپ بیٹھی تھی۔دنیا میں ساسوں کے بعد سب سے زیادہ سیاست دان بولتے ہیں ۔لیکن لگتا ہے ہمارے بچے کم کرنے کی وزارت کے وزیر جے سالک صاحب بچوں کی طرح بولنے کو اہم کام سمجھتے ہیں ۔اسی لیے انہوں نے فرمایا ہے میں نے قذافی سٹیڈیم میں مسلسل 16گھنٹے تقریر کرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہے ۔
اس لیے میرا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہونا چاہیے۔ہمارے خیال میں تو اس میں سننے والوں کا نام شامل ہونا چاہیے۔اتنے گھنٹے تو بندہ طاہرہ سید کو سنے تو نعیم بخاری لگنے لگتا ہے ۔ہاں اگر وہ کہتے ہیں کہ مسلسل 16گھنٹے اس علاقے کے لوگوں کو تقریر میں مصروف رکھ کر میں نے بہود آبادی کا یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ اس علاقے میں بچوں کی شرح پیدائش ایک فیصد کم کر دی ہے تو بات ماننے والی تھی۔
ہم جے سالک صاحب کو ذاتی طور پر نہیں جانتے ‘لیکن ہم نے نور جہاں‘ عطاء اللہ‘ عیسیٰ خیلوی‘ بے نظیر‘ ریشماں‘ حسین بخش گلو‘ نواز شریف اور جے سالک کو بہت سنا ہے ۔جے سالک پہلے ہاتھ چھوڑ کر سائیکل چلایا کرتے تھے ۔آج کل ایسے ہی وزارت چلاتے ہیں ۔ہماری جس بارے میں اچھی رائے ہو ‘اسے ذاتی طور پر جاننے کی کوشش نہیں کرتے ۔
جب گیمیا آزاد ہوا تو اس کے وزیر اعظم پیشے کے اعتبار سے جانوروں کے ڈاکٹر تھے ۔بی بی سے کے نمائندے نے انٹرویو لیتے ہوئے ان سے پوچھا:” آ پ کا پیشہ“ تو وہ بولے:” میرے ملک کی گائے سے پوچھ لو۔وہ مجھے ذاتی طور پر جانتی ہے ۔“ہم ذہنی امراض کے ڈاکٹر ہیں ۔سیاست دانوں سے اس لیے نہیں ملتے کہ لوگ سمجھتے ہیں ‘ہمارا ان سے پیشہ وارانہ تعلق ہے ۔
یہ تعلق بڑا مشکوک ہوتا ہے ۔ہمارے ایک ڈاکٹر صاحب کی فلمی ڈانسر سے ملاقاتوں کی خبر اس کی بیوی تک پہنچی تو اس نے پوچھا:” تم اس حرافہ کو کس سلسلے میں ملتے ہو ؟“ڈاکٹر نے کہا :”پیشے کے سلسلے سے ۔“تو بیوی بولی:” کس کا پیشہ تمہارا یا اس کا ۔“پچھلی چند دھائیوں اور دوہائیوں میں سیاست دانوں نے بڑی ترقی کی ہے ۔ایک سیاست دان کو ہم بھی جانتے ہیں ‘جنہوں نے میٹرک بھی کرلیا ہے ۔
وہ ایک تقریر میں فرمارہے تھے:” انسان اور جانور میں بڑا فرق ہے ۔انسان نے پچھلے دس برسوں میں بڑی ترقی کی ہے ‘جبکہ جانوروں نے نہیں کی۔“ایک صحافی نے پوچھا :”آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟“ تو وہ بولے:” گدھے کو دیکھ لیں ۔جیسا پہلے تھا ویسا ہی آج آپ کے سامنے ہے ۔“زبان میں سب کچھ ہو سکتا ہے‘ لیکن ہڈی نہیں۔ سیاست دان زبان سے سوچتا ہے ۔
اس کا منہ اس کے دماغ سے تیز چلتا ہے ۔کہتے ہیں برصغیر پر انگریز نے اتنے سال اپنی زبان کے زور پر حکومت کی ۔تاریخ گواہ ہے‘ وہی قوم دوسری پر حاوی ہوئی جس کی زبان دوسری قوم کی زبان پر حاوی ہو گئی۔سیاست دان ہم پر زبان کے زور پر حکومت کرتے ہیں ۔وہ سولہ گھنٹے بولتے ہیں اور ایک بات بھی نہیں کہتے ۔اسمبلی میں ان کی گفتگو کو خود کلامی کہتے ہیں مگر چپ ہونے کے پیسے لیتے ہیں ۔
ان کی یاد داشت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ ایک سیاست دان نے کہا:” مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ بچپن میں جب میں اپنے چار منزلہ مکان کی چھت سے گرا تھا ‘تو زندہ بھی بچا تھا یا نہیں۔ ایران میں اطلاعات ونشریات کے وزیر کو وزیر ارشاد کہتے ہیں ۔یہاں تو ہر وزیر ہی وزیر ارشاد ہے ۔جتنے ان کے منہ سے روزانہ الفاظ نکلتے ہیں‘ اتنے گندم کے دانے نکلتے تو پاکستان میں کوئی بھوکانہ سوتا۔
جے سالک صاحب کہتے:” کام کرنے کے تین طریقے ہیں ۔ایک صحیح طریقہ دوسرا غلط طریقہ اور تیسرا میرا طریقہ ۔“وہ بڑے طریقے سے ریکارڈ بناتے رہتے ہیں ۔وہ بچے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ بڑوں کو کنٹرول کرلیں تو بچے ہوں ہی نا۔محکمہ بہود آبادی اب محکمہ بے بہابود آبادی بن گیا ہے ۔محکمہ بہود آبادی کا ایک افسر بتا رہا تھا وہ مصری جنہوں نے احتیاطی تدابیر نہ کیں‘” ممی“ بن گئے ۔
ہمارے ہاں یہ کچھ کرنے والے ڈیڈی بنتے ہیں ۔ہمارے ہاں بچے بہت ہوتے ہے اور مغرب والے والدین ۔ہالی وڈ میں اس بچے کو کمتر خیال کیاجاتا ہے جو جب گرائمر سکول سے گریجویشن کرکے نکلے تو اس کے والدین وہی ہوں جنہوں نے اس کنڈر گارٹن میں داخل کروایا تھا۔سالک صاحب کا محکمہ تونا امیدی پھیلانے کے لیے ہے کیونکہ اس کا مقصد ہے کوئی امید سے نہ ہو۔اس کے باوجود ہمیں جے سالک صاحب سے بڑی امید ہے ۔جہاں تک ورلڈر یکارڈ بنانے کا تعلق ہے تو انہیں چاہیے ‘16گھنٹے خاموش رہنے کا ریکارڈ بنائیں کیونکہ سولہ گھنٹے کی مسلسل تقریر کا کائی نوٹس نہ لے گا۔اگر کسی نے نوٹس لیا ہوتاتو یہ سولہ گھنٹے کی ہوتی ہی کیوں ۔

Browse More Urdu Mazameen