Farq Parega

Farq Parega

فرق پڑیگا

فرق پڑے گا ہم خیال لوگوں کی ایک مشترکہ کاوش ہے جس کا مقصد لوگوں میں یہ آگاہی پیدا کرنا ہے کہ خیرات اور عطیات سے معاشرے میں فرق تب ہی پڑیگا جب انکی دی ہوئ امداد اسکے اصل حقدار تک پہنچے گی۔
 ہمارا مقصد لوگوں کو اس بات کا احساس کروانا ہے کہ یہ لازم نہیں کہ آپکی دی ہوئی  خیرآت اور عطیات ان ہی لوگوں تک پہنچے جن کی مدد کرنے کی نیت سے آپ نے پیسا دیا ہے۔

آپکی دی ہوئی خیرات غلط ہا تھوں میں بھی جاسکتی ہے‘ جو نا صرف  آپکے پیسوں کا ضیاع ہے بلکہ آپکا یہ عمل معاشرے کی تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ 
جب ہم کسی کی مدد کرتے ہیں ہماری نیت صاف اور ارادے مخلص ہوتے ہیں۔ لیکن جذبات کی رو میں بہہ کر ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کے ہمارے معاشرے میں کئی ایسے عناصر موجود ہیں جو لوگوں کے خلوص‘ رحم ‘ اور انسانیت کے جذبے کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں اپنے نظرئیے ‘ خیالات اور اقدار دوسروں پہ نافذ کرنے کو غلط نہیں سمجھا  جاتا۔
تو سوال اٹھانے کی نوبت آنے سے پہلے ہی ہم کسی اور کے خیالات کو اپنی رائے سمجھ کر بہت سارے ایسے کام کر جاتے ہیں جنکا مقصد نیک لیکن نتیجہ تباہ کن نکلتا ہے۔
پاکستان میں ایسے بہت سے ادارے ہیں جو ملک دشمن عناصرکی مدد کے لیے سر گرم ہیں۔
یہ ادارے اپنا اصل چہرا چھپانے کے لیے خود کو فلاحی تنظیم کی شکل میں عوام سے امداد کی درخواست کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے ادارے اب تک لاکھوں کی تعداد میں خیرات اکھٹی کرنے میں کامیاب صرف اسلیے ہو سکے ہیں کہ ہم اپنے دلوں کے ساتھ اپنی آنکھیں کھلی نہیں رکھ پاتے۔
وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک دہشت گرد تنظیم کا سالانہ بجٹ کم و بیش پچاس لاکھ سے ڈھائی کروڑ روپے ہے۔
اور اس بھاری رقم کا بہت بڑا حصہ ہماری ہی جیبوں سے خیرات کے نام پہ لیے پیسوں سے بنتا ہے۔
یہ وہ مسئلہ ہے جس کے لیے بلند ہونے والی آوازوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ برائی کا جوبیج ہماری غفلت کی وجہ سے بویا گیا آج وہ بڑھ کر ایک تن آور درخت بن چکا ہے  جس کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ہم سب کو مل کر کوشش کرنی ہوگی۔
فرق پڑیگا اسی کوشش کو ممکن بنانے  کے لیے ہم خیال لوگوں کی ایک کاوش ہے جس کے تحت وڈیو اور سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے عوام کو اس معاملے کی گہرائ تک پہنچانا ہے تاکہ لوگ کسی بھی ادارے کو خیرات اور عطیات دینے سے قبل اپنی جانب سے ہر ممکن جانچ پڑتال کرسکیں۔

ہر وڈیو پیغام میں ایک ایسا مرکز دکھایا جاتا ہے جہاں لوگ عام طور پر ضرورت مندوں کی مدد کی نیت سے عطیات دیتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ انکا دیا ہوا پیسہ کسی انسان دشمن تنظیم کے ناپاک مقاصد کی تکمیل میں استعمال ہو رہا ہوتا ہے۔
تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ دہشتگردی اور انتہاپسندی  کہ اس گھناٰوُنے کھیل کا غیرجانبدار حصہ بننے سے کیسے بچا جائے؟
ہر فلاحی ادارے یا ہر ضرورت مند کی تحقیق کرنا اتنا آسان نہیں، لیکن کسی بھی ادارے یا جماعت کو پیسا دینے سے پہلے اگر مندرجہ ذیل عوامل کی جانچ پڑتال کرلی جائے تو صحیح کو غلط سے علیحدہ کرنا ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

۱) ادارے کا ایجنڈا
۲)اب تک ادارے نے انسانی خدمت کے لیے کیا کیا ہے؟
۳)ادارے کے اقدامات کا معاشرے پر کیا اثر پڑا ہے؟
۴)ادارے کی کونسی چیز اسے قابلِ اعتماد بناتی ہے؟
۵)ادارہ کتنے عرصے سے کام کر رہا ہے اور اسکی تاریخ کیا ہے؟
: اسی طرح کسی بھی فرد کی مالی مدد سے قبل مندرجہ ذیل ۴ سوالات کے جوابات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے
۱) وہ شخص کون ہے اور کس طبقے سے تعلق رکھتا ہے؟
۲)اسے مالی مدد کی ضرورت کیوں ہے؟
۳)وہ اس پیسے کو کس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے؟
۴)آپ اس پیسے کے صحیح استعمال کو کس طرح یقینی بنا سکتے ہیں؟

کسی بھی ضرورت مند کی مدد کرنے سے پہلے یا کسی بھی فلاحی ادارے کو اپنے عطیات دینے سے قبل ان تمام عوامل کو مدِ نظر رکھنے سے آپکی مدد اسکے اصل حقدار تک یقینی طور پہ پہنچ سکتی ہے۔
تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ کسی ایسے ضرورت مند کی مدد کی جائے جسے آپ بذاتِ خود جانتے ہوں۔ ہمارے ارد گرد ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو اشد ضرورت کے باوجود سوال نہیں اٹھاتے۔ کوشش کیجیے کہ اپنے دوست، احباب یا پڑوسیوں میں ایسے لوگوں کی مدد کریں جنکی ضرورت سے آپ بخوبی واقف ہوں۔

فرق صرف تب ہی پڑیگا جب ہماری مدد مستحقین تک پہنچے گی۔

تاریخ اشاعت: 2017-12-13

More Technology Articles