India must blame itself, not WhatsApp, for its devastating lynching spree

India Must Blame Itself, Not WhatsApp, For Its Devastating Lynching Spree

جھوٹی افواہوں سے ہونے والی ہلاکتوں پر بھارت وٹس ایپ کو نہیں بلکہ خود کو الزام دے

میسجنگ پلیٹ فارمز جیسے وٹس ایپ پر اغواکاروں سے متعلق پھیلائی گئی جھوٹی خبروں کے باعث بھارت میں مئی سے لیکر اب تک کم از کم 29 افراد کو ہجوم نے قتل کر دیا ہے۔
حالیہ واقعے میں اتوار کو 3 ہزار افراد کے ہجوم میں سے 40 افراد نے 5 کسانوں کو ہلاک کر دیا۔ اس سے پچھلے ہفتے بھی ایسے ہی واقعے میں 3 افراد کو ہجوم نے ہلاک کر دیا تھا۔
پرتشدد واقعات کو روکنے میں ناکام بھارتی حکومت نے مجرموں کو پکڑنے کی بجائے وٹس ایپ کو حکم دیا ہے کہ وہ افواہوں کو پھیلنے سے روکے۔

کل ملک کے الیکٹرونکس اور آئی ٹی کے وزیر نے میسجنگ سروسز کو کہا ہے کہ اس طرح کے میسجز کو روکنے کے لیے فوری طور پر مناسب ٹیکنالوجی کام میں لائی جائے۔
مذکورہ وزیر کے اس حکم سے پتا چلتا ہے کہ وہ جدید میسجنگ ایپلی کیشنز کے کام کے طریقہ کار سے بالکل انجان ہیں۔

(جاری ہے)


حالیہ دور میں بھارت وہ واحد ملک ہے جہاں ہجوم افواہوں پر درجنوں لوگوں کو قتل کر چکے ہیں۔


بی بی سی نے ان واقعات کی کوریج کے دوران بچوں کی حفاظت کے لیے پاکستان میں بنایا جانے والا وہ ویڈیو کلپ بھی دکھایا جسے ایڈٹ کر کے بھارت میں پھیلایا جا رہا ہے۔ کراچی میں فلمائے جانے والے اس کلپ میں ایک این جی او نے یہ دکھایا تھا کہ کراچی میں کس طرح چند سیکنڈوں میں بچے اغوا کیے جا سکتے ہیں لیکن بھارت میں اسے ایڈٹ کر کے یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیسے سی سی ٹی وی کے سامنے کوئی حقیقت میں بچے اغوا کر رہا ہے۔


بھارتی پولیس بھی کئی ہفتوں سے ان افواہوں کے خاتمے کےلیے کام کر رہی ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں لاؤڈ سپیکروں پر لوگوں سے افواہوں پر کان نہ دھرنے کی تلقین کی جار ہی ہے۔
اس تمام صورت حال میں وٹس ایپ یا کسی کے لیے بھی یہ مسئلہ حل کرنا آسان نہ ہو۔

بھارت میں وٹس ایپ کے 20 کروڑ صارفین ہیں۔ گوگل کا اندازہ ہے کہ بھارت میں 2020 تک پچاس کروڑ افراد سمارٹ فونز کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہونگے اور بھارت میں انٹرنیٹ ڈیٹا دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ سستا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ دوسری بہت سی میسجنگ سروسز کی طرح وٹس ایپ بھی صآرفین کو اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کی سہولت دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وٹس ایپ خود بھی صارفین کے پیغامات نہیں پڑھ سکتا۔
اسی وجہ سے پولیس یا وٹس ایپ کے لیے لوگوں کی چیٹ پر نظر رکھنا ممکن نہیں۔ اس لیے بھارتی حکومت کو وٹس ایپ کو الزام دینے کی بجائے دوسرے ممکنہ طریقے استعمال کرنے چاہیے۔
بھارت کی حکمران بھارتیا جنتا پارٹی کے ہزاروں وٹس ایپ گروپس ہیں جو انتخابی مہم کے لیے بنائے گئے ہیں، بھارتی حکومت اگر لوگوں کو کہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں کے بارے میں ان گروپس سے ہی تصدیق کر لیں تو اس طرح کے واقعات میں کسی حد تک کمی آ سکتی ہے۔
اس کے علاوہ پولیس کو بھی جدید آلات سے لیس کرنا پڑے گا تاکہ وہ ممکنہ حادثے کے وقت فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ کر کاروائی کر سکیں۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق وٹس ایپ نے بھارت کے آئی ٹی منسٹر کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ غلط معلومات کو روکنے کے لیے حکومت، معاشرے اورٹیکنالوجی کمپنیوں کو اکھٹے کام کرنا ہوگا۔ وٹس ایپ نے بتایا کہ انہوں نے گروپ میں صرف ایڈمنز کی طرف سے پوسٹ کرنے کا فیچر متعارف کرایا ہے۔ اس کے علاوہ فارورڈ میسج پر فارورڈ کا لیبل بھی نظر آتا ہے ، جس سے شہریوں کو اندازہ ہونا چاہیے کہ یہ میسج کسی نے ذاتی طور پر ٹائپ نہیں کیا بلکہ کسی دوسرے کے میسج کو فارورڈ کیا ہے۔

تاریخ اشاعت: 2018-07-04

More Technology Articles