Khatron Main Jeenay Ki Aadat Ho Gayi Hai - Article No. 1371

Khatron Main Jeenay Ki Aadat Ho Gayi Hai

خطروں میں جینے کی عادت ہوگئی ہے - تحریر نمبر 1371

ایڈیشنل ایس ایچ اوفضہ ممتاز کاکہناہے کہ جس جذبے کے تحت میں نے اس ادارے میں قدم رکھاتھا آج بھی اس کاحق ادانہیں ہوسکا،میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں مگر مجھے مواقع نہیں ملے۔

بدھ 16 دسمبر 2015

ایڈیشنل ایس ایچ اوفضہ ممتاز کاکہناہے کہ جس جذبے کے تحت میں نے اس ادارے میں قدم رکھاتھا آج بھی اس کاحق ادانہیں ہوسکا،میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں مگر مجھے مواقع نہیں ملے
فضہ ممتازنڈرپولیس آفیسر ہیں جواپنے فرض کی راہ میں ذاتی زندگی کی حائل نہیں ہونے دیتیں اور ہمیشہ سے ان کافرض ہی ان کی پہلی ترجیح رہاہے۔
فضہ بہت ہی چیلنجنگ (Challenging)شخصیت کی مالک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ناموافق حالات اور وقت کی حدود قیودبھی انہیں فرض کی ادائیگی سے نہیں روک سکیں۔فضہ تھرڈائیرکی سٹوڈنٹ تھیں جب انہوں نے ٹی اے ایس آئی (TASI) کی جاب کے لئے اپلائی کیایوں ٹیسٹ کے بعد رزلٹ آنے اور سلیکشن ہونے تک وہ گریجوایشن کرچکی تھیں۔فضہ کے ایک ہی بھائی ہیں اور وہ اکلوتی ہونے کے وجہ سے نہ صرف اپنے والدین بلکہ بھائی کی بھی بے حدلاڈلی ہیں۔

(جاری ہے)

فضہ کے بھائی میں کوئی نمایاں مقام حاصل کریں۔ اس وقت میں اتنی بڑی نہیں ہوئی تھی کہ اپنے کیرئیر کے بارے میں خودفیصلہ کرسکتی لیکن بھائی نے مجھے آگے بڑھنے کاحوصلہ دیاآج میں اپنے بھائی ہی کی وجہ سے اس مقام پرہوں۔
2003میں فضہ بطورٹی اے ایس آئی (TASI) بھرتی ہوئیں پھر ایک سال تک سہالہ میں ٹریننگ لینے کے بعد اے بی سی ڈی (ABCD) کورسز مکمل کئے۔
پولیس ڈیپارٹمنٹ جوائن کرنے کے کچھ عرصہ بعد ہی فضہ نے ماسٹرز کی تیاری شروع کردی اوریوں انہوں نے جاب کے دوران پولیٹیکل سائنس اور اسلامیات میں ماسٹرز بھی کرلیاپھر5برس بعد2008میں ان کی پروموشن ہوگئی اور فضہ سب انسپکٹر (Sub Inspector) بن گئیں،2010میں انہوں نے اپرکورس (Upper Course کیا۔پولیس میں آنے سے پہلے میرے اندربالکل خوداعتمادی نہیں تھی،میں جلد گھبراجاتی تھی۔
ٹریننگ کے دنوں میں ایک دن ایسا ہواکہ ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد مجھے بھائی نے پک (Pick) کرنے کی بجائے کہاکہ میں خودبس کے ذریعے گھرآجاؤں۔اس وقت سڑک پرکھڑے ہوکربس روک کرسوار ہونا، میرے لئے بہتر بڑا معرکہ سرکرنے کے برابر تھا۔بہرحال کچھ دیر سڑک پرکھڑے ہونے کے بعد بالآخر میں بس میں سوار کرگھر پہنچ ہی گئی،پھر توجیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مجھے خطروں اور دھمکیوں میں جینے کی عادت ہوتی گئی۔
اب کوئی ڈریا گھبراہٹ نہیں رہی تھی۔ میں سمجھتی ہوں اگر بھائی مجھے زندگی میں نئی سمت نہ دکھاتے توشایدمیں اتنی کامیاب نہ ہوتی۔پولیس کی نوکری میں اکثر24گھنٹے کی ڈیوٹی بھی کرتی پڑتی ہے۔ جیسے 2007میں بینظیربھٹوڈیفنس(لاہور) کے علاقے میں قیام پذیر تھیں ایک دن ان کی رہائش گاہ پرمیری نائٹ ڈیوٹی لگادی گئی اب میں اپنے دودھ پیتے بچے کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتی تھی لہٰذا مجھے اپنے بیٹے کوچھوڑکرڈیوٹی کے لئے گھر سے نکلنا پڑا۔
اسی طرح جب میرے بیٹے کی پہلی سالگرہ کی تقریب تھی، گھر میں مہمان آچکے تھے اچانک مجھے ایمرجنسی کال آگئی کہ کسی جگہ ریڈ( Raid) کے لئے جاناہے۔ لہٰذا میں نے اسی وقت اپنا یونیفارم پہنا اور مہمانوں کوگھر پر چھوڑ کرڈیوٹی کے لئے نکل گئی۔اس طرح ڈیوٹی مکمل کرنے کے بعد واپس آکر ہم سب نے کیک کاٹا اور سالگرہ منائی۔
گرمی ہویاسردی․․․ بعض اوقات آدھی رات کوڈیوٹی کے لئے بلالیاجاتاہے۔
اس صورت حال میں نہ صرف شوہر بلکہ تمام سسرالی رشتے داربھی بہت تعاون کرتے ہیں اگروہ میری نوکری کے تقاضوں کونہ سمجھتے توشاید میں ایسی چیلنجنگ صورت حال میں کبھی جاب نہ کرسکتی۔
فضہ کوشکوہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کسی بھی طرح مردوں سے پیچھے نہیں ہیں” اس کے باوجود میں اگرکسی ذاتی مجبوری کاذکرکروں تومیل کولیگز (Male Colleagues) سے یہ سننے کاملتاہے کہ آپ کوپولیس میں آنے کی کیاضرورت تھی کسی سکول میں استانی لگ جاتیں․․ دراصل شروع سے ہمارے معاشرے میں مردوں کاغلبہ رہاہے شاید اسی لئے وہ عورت کواپنی برابری کرتے برداشت نہیں کرسکتے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں عورت کی صلاحیتوں اورکارکردگی کوسراہنے کارواج نہیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میرے شوہر ممتاز حیدرشاہ کاتعلق بھی پولیس ڈیپارٹمنٹ سے ہے، ہو سکیورٹی ڈویژن میں آفس سپرٹینڈنٹ کی حیثیت سے ڈیوٹی کرتے ہیں اس لئے وہ ہمیشہ مجھے سپورٹ کرتے ہیں اورمیری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔فضّہ کے خیال میں عوام اور پولیس کے درمیان بہت بڑا خلاہے۔
میں سمجھتی ہون ہر جگہ ہرطرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، پولیس کے ڈیپارٹمنٹ میں بھی کچھ خامیاں ہیں مگر پھر بھی میں یہ کہوں گی پرکسی کوایک ہی ترازو میں تونہیں تول سکتے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ ہرپولیس اہلکار 100,100روپے میں بکنے والا ہے جبکہ یہ حقیقت نہیں۔ہم وقت عوام کے جان ومال حفاظت اور قوانین کی پاسداری کے لئے اپنی جان ہتھیلی پرلئے ڈیوٹی کے لئے تیارے رہتے ہیں اس کے باوجود لوگ ہمیں عزت کی نظرسے نہیں دیکھتے ۔
میں ہرسال ماڈل ٹاؤن پارک میں عیدکی نمازپڑھاتی ہوں مگر لوگ ہمیں اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ گزرتے ہوئے ہمیں عید مبارک ہی کہہ دیں۔
2012میں تھانہ ماڈل ٹاؤن میں مجھے بطور ایڈیشنل ایس ایچ او (Addl SHO) تعینات کیا گیا تاکہ خواتین بلاجھجھک میرے پاس اپنی شکایات لے کرآئیں۔میں خود بھی چاہتی ہوں کہ عوام اور پولیس کے درمیان غلط کرپرکیاجائے، ہماری زندگی ہروقت خطروں میں گھری رہتی ہے مگر لوگوں کواحساس ہیں کہ ہم بھی انہی کی طرح انسان ہیں۔
عوام پولیس کی ایک خامی کولے کرہنگامہ کھڑاکر دیتی ہے مگر بڑی بڑی قربانیوں سے لوگ بے خبر رہتے ہیں۔اس میں میڈیابھی قصوروار ہے کیونکہ میڈیا میں بھی پولیس کی منفی صورت ہی دکھائی جاتی ہے۔انڈیا میں پولیس اور فوج کا مورال بلند کرنے کے لئے مختلف فلمیں اور ڈرامے بنائے جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں صرف ”پس‘ آئینہ وہ وحد ڈرانہ سیریل تھا جس میں پولیس کامثبت عکس دکھایا گیاتھا۔
میری خواہش ہے کہ عوام اور پولیس کے درمیان غلط فہمیوں کودورکرنے کے لئے پولیس کا خصوصی ٹی وی چینل کھولاجائے جس میں پولیس اہلکاروں کی نمایاں سرگرمیوں کوعوام کے سامنے لایا جائے تاکہ شہداء کی قربانیوں کے بارے میں بھی عوام کوجاننے کاموقع ملے۔
فضہ کی رائے میں ” وہ لڑکیاں جن میں مشکلات کامقابلہ کرنے اور جرات مندانہ فیصلے کرنے کی ہمت ہے ہو صرف پولیس میں آئیں اور اپنے آپ کو منوائیں۔
اس وقت تھانہ ماڈل ٹاؤن میں کوئی بھی شخص ماسٹرزڈگری سے کم نہیں اور میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ یہاں” زیروکرپشن“ کویقینی بنایاگیاہے۔آپ کسی بھی طرح کی شکایت لے کرآئیں، آپ کی شکایت کومیرٹ پردرج کیا جائے گا۔البتہ میں سمجھتی ہوں کہ جس جذبے کے تحت میں نے اس ادارے میں قدم رکھا تھا اس کا آج بھی حق ادانہیں ہوسکا، میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں مگر مجھے لگتا ہے اب تک مجھے ایسے موقع نہیں ملے۔
میراخیال ہے کوئی بھی جگہ بری نہیں ہوتی اس لئے میں اکثر کہتی ہوں اتنے خطرات میں رہنے کے باوجود میں نے اپنی تعلیم مکمل کی شادی ہوئی اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ دیگر امورزندگی کوبھی پورا کیا۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کسی بھی کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کاہاتھ ہے مگر میرے ساتھ یہ معاملہ الٹ ہے میری کامیابی کے پیچھے دومردوں کاہاتھ ہے ایک میرا بھائی اور دوسرا میرے شوہرکا․․ ان دونوں کے بغیر میں یہ مشکل سفرکبھی طے نہیں کرسکتی تھی۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Khatron Main Jeenay Ki Aadat Ho Gayi Hai" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.