Khawateen Ko Sajanay Waliyan Khud Kis Hal Mein Hain - Article No. 1795

Khawateen Ko Sajanay Waliyan Khud Kis Hal Mein Hain

خواتین کو سجانے والیاں خود کس حا ل میں ہیں؟ - تحریر نمبر 1795

بیوٹی پارلرز میں خواتین کا بناوٴ سنگھار کرنے والی خواتین ورکرز خودسنگین مسائل کا سامنا کرتی ہیں

ہفتہ 14 اپریل 2018

حنا جاوید پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں مزدوروں کا ایک بہت بڑا طبقہ طاقت ور طبقے کے رحم و کرم پر ہے۔ وہ دن رات محنت و مشقت کرنے کے با و جو د بھی بمشکل دو وقت کی روٹی کما پاتے ہیں۔ ان سے مشقت تو کروالی جاتی ہے لیکن اس کے مطابق معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ کچھ یہی حال حسن و خوبصورتی کا کاروبار کرنے والے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والی ورکرز کا بھی ہے۔
وہ خواتین جو بیوٹی پارلرز میں سارا دن عورتوں کو سجانے سنوارنے کا کام کرتی رہتی ہیں، ان کے حالات پر نظر ڈالنے سے آپ کوان بھی سجائی د و کانوں کے پیچھے چھی بدصورتی صاف دکھائی دے گی۔ عورت کی فطرت ہے کہ وہ بناوٴ سنگھار پسند کرتی ہے خواہ وہ اپنے لئے کرے یا اپنے شوہر کے لئے کرے … ماضی میں چونکہ عورتیں تعلیم یافت نہیں تھیں اور نہ ہی شعور رکھتی تھیں، اس لئے وہ یہی سبجھتی تھیں کہ ان کی ذمہ داری چولہا چوکی اور بچوں کی دیکھ بھال ہی ہے گھر سے باہر نکلنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

اس وقت بننے سنورنے کا کام بھی خواتین اگر میں کر لیتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مردوں کی اجاراداری کے اس معاشرے میں عورتوں نے بھی اپنی جگہ بنانی شروع کر دی۔ جیسے جیسے تعلیم عام ہوتی گئی ویسے ویسے سوچ میں تبدیلی آنے لگی اور خواتین نے بناوٴ سنگھارکو بھی دیگر شعبوں کی طرح بطور پیشہ اپنا لیا ، گھر کے ایک کمرے سے شروع ہونے والا یہ کام اب پوری انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
اب آپ کسی بھی بیوٹی پارلر میں چلے جائیں بناؤ سنگھار سے متعلق ہر کام کے لئے الگ کمرا مختص نظر آئے گا جن میں فیشل روم، پیڈی کیور، مینی کیور ویکسنگ روم، میک اپ روم اور خاص برائیڈل روم وغیرہ شامل ہیں۔ اگر چہ آغاز میں بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی خواتین کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا لیکن انھوں نے معاشرے کے اس بے رحمانہ رویے کی پروا نہ کی اور اس کام کو جاری رکھا۔
آج کل بیوٹی پار کارحجان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہر عورت اپنے حسن کی تراش خراش کے لئے بیوٹی پارلر کا رخ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بلاشبہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ پیشہ با وقا رتو تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن اس میں کام کرنے والی نچلے طبقے کی خواتین آج بھی مسائل کا شکار نظر آتی ہیں۔ بیوٹی پارلرز کی مالکان چونکہ سرمایہ کاری کرتی ہیں اس لئے ان کو اس سے غرض نہیں کہ ان کی ورکرز کو کیا مسائل درپیش ہیں؟ وہ صرف اپنے بزنس کو بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتیں!! خواتین ورکرزکا استحصال۔
۔۔ اکثر پارلر مالکان خواتین کومختلف سروسز کے لئے سستے پیکج فراہم کرتی ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ گاہک بنیں۔ تاہم اس سے صرف اور صرف ورکرز کا استحصال ہوتا ہے۔ بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والی لڑکیوں کا تعلق عموما نچلے طبقے سے ہوتا ہے، وہ ز یا د تعلیم یافتہ بھی نہیں ہوتیں اور کسی مجبوری کے تحت ہی یہ کام کر رہی ہوتی ہیں۔ ان کی اسی بے بسی اور مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھ ہرقسم کا غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
ان سے دن رات محنت کروانے کے باوجود وہ معاوضہ نہیں دیا جاتا جس کی وہ حقدار ہوتی ہیں۔ دوسری طرف کسی معمولی غلطی پر بھی انہیں سب کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے تا کہ پارلر کی عزت و وقار پر حرف نہ آئے۔ ورکرز کو آمد ورفت کی سہولت بھی فراہم نہیں کی جاتی اور وہ اس معاملے میں اپنے گھر کے مردوں پرانحصار کرتی ہیں۔ بعض پارلرز میں تو ورکرز کو کھانے پینے کی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی۔
اس صورتحال میں بھی وہ اپنا کام ایمانداری سے کرتی ہیں تا کہ ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے اور ان کے بچے سکول جائیں۔ بیوٹی پارلرز کی ور کرز، و نو جوان ، کاروباری اور خودمختار خواتین ہیں جو مالی طور پر اپنے خاندان کا سہارا ہوتی ہیں مگر جب بڑی بڑی گاڑیوں میں امیر کبیر خواتین بیوٹی پارلرز کا رخ کرتی ہیں توان کے حسن کو نکھارنے اور سنوارنے والی خواتین ورکرز خودکن ابتر حالات میں زندگی گزارتی ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔
فاطمہ نامی خاتون سات سال سے بیوٹی انڈسٹری سے منسلک ہیں۔ انھوں نے لاہور کے علاقے گلبرگ میں قائم بیوٹی پارلر سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور پھر کچھ عرصہ ایم ایم عالم روڈ کے ایک نامور بیوٹی پارلر میں کام کیانیالیکن پارلر مالکان کے استحصال کا شکار ہونے کے بعد اب وہ خود گھر گھر جا کر عورتوں کی ویکسنگ کر کے روزی روٹی کا سامان اکٹھا کر تی ہیں۔
ان کا کہنا ہے مجھے شروع میں بیوٹی پارلر پر زیر تربیت رکھا گیا، میں بغیر تنخواہ کے دن میں نو نو گھنٹے اور ہفتے میں چھ چھ دن کام کرتی کیونکہ یہ آپ کی اپنی صلاحیت پرمنحصر تھا کہ آپ تین مہینے میں ماہر ہو جائیں یا چھے مہینے میں اس کے بعد ہی نوکری پر رکھا جاتا ہے۔ تاہم جب مجھے نوکری پر رکھا گیا تو تین ہزار ماہانہ خواہ سے زیادہ ایک دھیلہ نہ ملتا تھا۔
جب میں نے خواہ میں اضافے کی بات کی تو انھوں نے کہا کہ مارکیٹ میں غیر تربیت یافتہ لڑکیوں کا معاوضہ اتناہی ہے اوراگرتم ترقی چاہتی ہوتو زیادہ سے زیادہ محنت کرو۔ میں سمجھتی ہوں یہ پوری بیوٹی انڈسٹری ہی بہت سخت ہے۔ کچھ ماکان تو بہت زیادہ استحصال کرتی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چونکہ پاکستان میں بیوٹی پار لررجسٹرڈ نہیں ہیں اس لیے ہر جگہ کام کے حالات مختلف ہیں کہیں خوفناک ہیں اور کہیں بہت ہی بدتر ۔
ما لکان دوسروں سے آگے نکلنے کی دوڑ میں گاہکوں کو دوسرے پارلرز کے مقابلے میں سستے اور بہتر پیکجز آ فر کرتے ہیں اور ورکرز کوکم معاوضے میں بھی کام کر نا پڑتا ہے۔ پاکستانی قانون کے مطابق جو ورکر فل ٹائم جاب کرتا ہے اس کی تنخواہ کم از کم پندرہ ہزار ہو نی چا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اس سلسلے میں جب اسلام آباد کی ایک بیوٹی پارلر کی مالکہ سے گفتگو کی گئی تو ان کا کہا تھا اگر وہ غیر تربیت یافتہ لڑکیوں کو پندرہ ہزار ماہانہ دیں گی تو خود کیا کمائیں گی ؟ ان لڑکیوں کو تو ہمارا شکر گزار ہونا چاہے کہ ہم ان میں مہارت سکھانے کے پیسے نہیں لیتے بلکہ مفت تربیت کرتے ہیں اور بدلے میں انھیں جیب خرچ بھی دیتے ہیں۔
کراچی کے پوش علاقے میں قائم ایک بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی زینب کا کہنا ہے میں چار سال سے بیوٹی پار میں کام کر رہی ہوں۔ میرے نزدیک یہ واحد جگہ ہے جہاں آپ بغیر کسی ڈپلو مہ اورڈ گری کے عزت سے کام کر سکتے ہیں، اس کے باوجود ہمارا معاشرہ، ایک پارلر میں کام کرنے والی عورت کو عزت نہیں دیتا جبکہ پڑھی لکھی عورت کو وہ جوبھی کام کرے، زیادہ عزت ملتی ہے، ایسی تفریق کیوں؟ حالانکہ میں یہ کام اس لئے کرتی ہوں تا کہ میرے بچے اچھے سکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں، اب آپ بتائیں اس میں زیادہ عزت دار کون ہے؟ جبری معاہدے اور بلیک میلنگ ۔
۔لاہور کے علاقے اچھرہ میں قائم بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی عائشہ نامی خاتون کا کہنا ہے بیوٹی پارلر کی مالکہ یا سینئر ورکر ، آپ کوکبھی بال بنانا یا میک اپ کرنانہیں سکھائے گی۔ انہیں سینئر لڑکیوں سے زیادہ جونئیر لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے جن سے وہ پیڈی کیور، مینی کیور جیسے چھوٹے موٹے کام کرواسکیں شاید ہی سال میں دو تین بار میک اپ کرنے کا موقع بھی دے دیں لیکن ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جونیئر لڑکیوں کو زیادہ آگے نہ آنے دیں۔
پاکستان کے بیشتر بیوٹی پارلرز میں ورکرز کے ساتھ معاہدوں کا کھیل بھی کھیلا جاتا ہے تا کہ ورکرز کونوکری چھوڑنے کی صورت میں بلیک میل کیا جا سکے۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ بیوٹی پارلرز میں تربیت یافتہ ورکرز ہی نوکری چھوڑنے کی مجاز ہوتی ہے وہ بھی اسی صورت کہ اس کی شادی ہورہی ہو یا کسی وجہ سے اسے شہر چھوڑنا پڑے۔ عموماََ ورکرز کو تربیت دینے کے بعد پارلر ما لکان تین سے پانچ سالہ مدت تک کے معاہدے پر دستخط کروا لیتی ہیں جس میں یہ صاف صاف درج ہوتا ہے کہ اگر ورکرز اس معاہدے کی خلاف ورزی کریں گی یا کسی دوسرے پارلر میں کام کر نے کی کوشش کریں گی تو ان کے خلاف عدالتی کاروائی کی جائے گی۔
اسلام آباد میں قائم بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی ربیعہ نامی خاتون کا کہنا ہے جہاں میں پہلے کام کرتی تھی وہاں کی مالکن بہت ہی ظالم خاتون تھیں۔ میں نے تین سال تک وہاں دس ہزار ماہ تنخواہ پر کام کیا۔ وہ ور کر دھمکی دیتی تھیں کہ اگر کسی نے یہاں سے جانے کا سوچا بھی تو وہ اس کے خلاف ایف آئی آر کٹوادیں گی اور دوسرے تمام بیوٹی پارلرز کو اس بارے میں آگاہ کر دیں گی تا کہ وہ انھیں نوکری پر نہ رکھیں لیکن میں ان کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتی تھی۔
اصل میں بیوٹی پارلرز کی مالکان خوفزدہ ہو جاتی ہیں جب ان کی کوئی تربیت یافتہ لڑ کی اچانک کوئی اور اچھی نوکری ملنے پر نہیں چھوڑ جاتی ہے ۔اور اسی لئے وہ ورکرز کو اپنے پاس مستقل رکھنے کے لئے قانونی معاہدے اور ایف آئی آر جیسے حربے آزماتی ہیں۔ بعض بڑے بیوٹی پارلرز میں امیر خواتین ورکرز کی خدمات سے خوش ہوکر سو یا دوسو روپ بخشش کے طور پربھی دے جاتی ہیں جہاں ایک طرف ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تو دوسری طرف ان میں احساس کمتری بھی بڑھ جاتا ہے، انہیں لگتا ہے کہ ان سے کام کروانے کے بعد لوگ انھیں بھیک دے جاتے ہیں۔
مالکان کو بھی ان کی اس بخشش سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اس لئے اب پارلر میں کام کرنے والی خواتین امیر گاہکوں کی خوب خوشامد کرتی ہیں۔ کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے میں قائم بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی فوزیہ جو کہ شادی شدہ خاتون ہیں، وہ ہفتے میں چھ چھ دن اور دن میں نونو گھنٹے کام کرتی ہیں، ان کا کام پیڈی کیور اور مینی کیور کرنا ہے۔ وہ پارلر سے فارغ ہوکر جب گھر جاتی ہیں تو وہ اپنے شوہر اور بچوں کے لئے کھانا بھی تیار کرتی ہیں اور پھر کہیں جا کر انہیں دن بھر کی مشقت سے فراغت نصیب ہوتی ہے۔
جس بیوٹی پارلر میں وہ کام کرتی ہیں وہاں ایک پیڈی کیور اور مینی کیور کے بارہ سو روپے لیے جاتے ہیں اورفوزیہ کا کہنا ہے کہ وہ دن میں چھ سے سات پیڈی کیور اورمینی کیور کر لیتی ہے اور اس کے باوجود ان کی ماہانہ تنخواہ اور بخشش ملا کر کل دس ہزار روپے ہی بنتے ہیں۔ حالانکہ جتنا وہ کام کرتی ہیں، اس سے ان کی مالکہ مہینے میں تقریبا ایک لاکھ ستر ہزار روپے ماہانہ کمالیتی ہیں جس میں سے صرف آٹھ ہزار فوزیہ کو دیتی ہیں۔
فوزیہ اسی پرخوش ہے کہ اس کے گھر کا خرچ نکل جاتا ہے لیکن اس کا حق مارا جا رہا ہے اس کا جواب کون دے گا؟ چونکہ یہ پیشہ اب کمرشل حیثیت اختیار کرگیا ہے اس لئے ہر بیوٹی پارلر ایک دوسرے سے مطابقت حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے۔ مالکان کی ہوس دن بدن بڑھتی جارہی ہے، وہ چاہتی ہیں کہ میں خواتین اپنے پیسے لٹانے ان کے پارلروں کے چکر کاٹتی رہیں جس سے ان کے بزنس کو چار چاند لگتے ہیں لیکن مسائل کا شکار کون رہتا ہے؟ وہ صرف بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والی خواتین ہیں جن کو خومختار تو کہا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ان سے ان کا حق چھینا جارہا ہوتا ہے جس کے خلاف وہ آواز بھی نہیں اٹھاپا تیں اور معاوضے اور مشکل حالات میں بھی گزارا کرنے پرمجبور ہیں۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Khawateen Ko Sajanay Waliyan Khud Kis Hal Mein Hain" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.