Kya Aaj Ki Saas Kal Sy Behtar Hai - Article No. 1838

Kya Aaj Ki Saas Kal Sy Behtar Hai

کیا آج کی ساس کل سے بہتر ہے؟ - تحریر نمبر 1838

پہلے ساسوں کا سارازور بہوﺅں سے گھریلو کام کاج کروانے پر ہوتا تھا مگر اب وہ بہو کو ”گھر داری اور سلیقے “ پر لیکچر دینے کی بجائے فیشن میں اس کی برابری کرنے پر دیھان دیتی ہیں

پیر 23 جولائی 2018

سیانے کہتے ہیں مچھر اور مکھی کی طرح ساس کی زندگی میں بھی نہ سکون ہوتا ہے اور نہ یہ کسی کو سکون لینے دیتی ہیں۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سانسوں کی طرح ساسوں کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ۔ پہلے پہل بہوئیں یہ دعا کرتی تھیں کہ ” ربایا تے سس چنگی ہووے یا اودی فوٹو دیوار تے ٹنگی ہووے“ کیوں کہ کچھ دہائیاں قبل ساس بہوں کے لیے کسی عزاب سے کم نہیں ہوتی تھیں۔
گھر میں اگر کوئی جانور پال رکھا ہو تو اس کا خیال بھی بہو ہی رکھتی تھی غرض یہ کہ ساس ایک سخت کمانڈو افسر کی طرح سارا دن بہو کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھتی تھی اور جہاں اس سے غلطی ہوئی بیٹے کو فوراََ خبر کردی جاتی۔ انہی سختیوں کے دیکھتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ ساس کبھی ماں نہیں بن سکتی ۔ بدلتے وقت نے ساس بہو جیسے رشتے کو بھی بدل دیا ہے۔

(جاری ہے)

آج کی ساس پہلے کی نسبت پڑھی لکھی وار سمجھدار ہے جو بہو سے ہر سطح پر برابری کرنے کے ہر گُر سے واقف ہے۔ بیوٹی پارلر میں ساس یا بہو؟ بہو تو بیوٹی پارلر جاتی ہی ہے لیکن ساس بھی اب گھر بیٹھے دیسی ٹوٹکوں پر یقین نہیں رکھتی ، وہ بھی نئے سے نئے بیوٹی پارلر کا رخ کرتی ہے اور وہاں جا کر اپنے بناﺅ سنگھار کا اہتمام کرتی ہے۔ اس کے تقاضے کسی طور بھی بہو سے کم نہیں ہوتے۔
اب وہ زمانے گئے جب ساس کا نام سنتے ہیں سفید بال، عام اور قدرے سستے ملبوسات پہننے والی موٹی ضعیف خاتون کا خیال ذہن میں آتا تھا، اب تو فیشن میں ساسیں بہو ﺅں سے دو قدم آگے دکھائی دیتی ہیں۔ معروف برانڈز کے ملبوسات، ہیرڈائی اور دیگر فیشن کے تقاضے اب بہو سے زیادہ ساسیں پورے کرتی ہیں۔ پہلے سااس اپنی عمر کی مناسبت سے ملوسات میں ہلکے رنگوں کا انتخاب کرتی تھی مگر آج یہ حالات کہ بیٹے کی شادی پر ماں کے کپڑوں کی جمک دمک سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ دلہن کی ساس ہے۔
اس طرح پہلے ساسیں شادیوں پر بھی میک اپ سے پرہیز کرتی تھیں مگر اب وہ بھی مہنگے پارلر سے تیار ہوتی ہیں او ر دلہن کی ساس ہے۔ اسی طرح پہلے ساسیں شادیوں پر بھی میک اپ سے پرہیز کرتی تھیں مگر اب وہ بھی پہلے پارلر سے تیار ہوتی ہیں۔ ہاﺅس وائف مسز راشد کہتی ہیں” پہلے ساسوں کا سارازور بہوﺅں سے گھریلو کام کاج کروانے پر ہوتا تھا مگر اب وہ بہو کو ”گھر داری اور سلیقے “ پر لیکچر دینے کی بجائے فیشن میں اس کی برابری کرنے پر دیھان دیتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر سرگرم پہلے ساس بیٹے کی بہو کی کئی باتوں کو سچ مان لیتی تھی مگر اب وہ خود سوشل میڈیا پر سرگرم رہتی ہے کہ یہ دیکھے کہ بیٹا اور بہو کس قدر سچ بول رہے ہیں۔ اپنے سمارٹ فون کی برکت سے وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے۔ کہیں ڈنر کر رہے ہیں یا پھر برگر کھا رہے ہیں۔پہلے باہر کے کھانے بہو کھانے جاتی تھی مگر اب بہو کے ساتھ ساتھ ساس ھی باہر کے کھانے انجوائے کرتی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ریستوران میں جانا ہو اور ساس پیچھے رہ جائے،وہ سب سے آگے ہوتی ہے اور خود تجویز کرتی ہے کہ کہاں سے کیا کھایا جائے۔ پھر وہ آرڈر بھی خود دیتی ہے کہ کیا کیا نو جاں ہوگ، بل بھاری ہو یا ہلکا وہ بیٹا ہی ادا کرے گا۔ ایک ہاﺅس وائف مسز کو ثر کہتی ہیں ”ہمارے زمانے میں ساسیں یہی بات دوہراکر ہمیں بلیک میل کرتی تھی کہ شوہر کے دل کا راستہ بیٹ سے ہو کر گزرتا ہے لہٰذا اچھے اچھے کھانے بنایا کرو، اگر نہیں آتے تو شوہر کی خوشنودی کے لیے سیکھ لو۔
ورکنگ ساس خواتین کی پڑھائی کے تناسب میں اضافے کی بدولت اب ساسیں بھی پڑھی لکھی اور زمانے کے ساتھ چلنے پر والی ہیں اور پہلے کیبرح گھر داری کے ساتھ اپنے کیرئر پر فوکس بھی کرتی ہیںبلکہ ورکنگ بہو کو برابرکی ٹکر دیتی نظر آتی ہیں۔ چاہے وہ کسی بینک میں کام کر رہی ہوں یا کسی سکول اور کالج میں پڑھاتی ہوں، انہیں اپنے سماجی تعلقات کی بھی فکر رہتی ہے۔
مغر ب میں تو چونکہ مستقل بیوی رکھنے کا بھی کئی رجحان نہیں لہٰذا وہاں ساس کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا لیکن مشرق میں گھر ساس کا راج ہوا کرتا تھا مگر اب ساس گھر بیٹھ کر بہو اور بیٹھے کے واپس آنے کا انتظار نہیں کرتی بلکہ مختلف تقریبات میں جانا پسند کرتی ہیں۔پہلے ساس بیٹے اور بہو اپنے شوہر کو نیاد بنا کر جھگڑتی تھی مگر اب ایسا نہیں کیونکہ اب بیٹے کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ساس اور بہو کے مابین کس نوعیت کی مقابلہ بازی چل رہی ہے۔
ماڈرن ساس نے کیا بدلا ہے؟ اگر دیکھا جائے تو ماڈرن ساس نے کچھ نہیں بدلا بلکہ صرف اپنا چولا بدلا ہے۔ ذہنیت وہی ہے۔ وہی دو تلواریں ہیں جو ایک نیام میں نہیں رہ سکتیں۔ نیا پن تو ہے مگر سوچ وہی ہے، ماڈرن ساس پرانی بوتل میں نیا مشروب ہے۔ پہلے پہل بیٹے بیویوں کے سامنے ماں کے بنائے ہوئے کھانوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے، ہر کام میں اپنی ماں کی مثال دیتے تھی اور اب تبدیلی یہ آئی ہے کہ اکثر بیٹے اپنی والدہ کی ملبوسات کی چوائس پر فخر کرتے ہیں کہ شاپنگ کرنے کا ڈھنگ میری والدہ کو ہی آتاہے۔
بہو ہمیشہ تزبزب کا شکار رہتی ہے کہ نہ جانے سسرال والوں کو اس کی کون سی بات بری لگ جائے، دوسری طرف ساس بھی بہو کے ساتھ گھلنے ملنے کی بجائے ش و پنج کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہے۔ ایک عورت جس نے 20 یا 30 سال ایک گھر میں حکمرانی کی ہو تی ہے، اپنے گھر مکی ساری ذمہ داریاں بخوبی نبھائی ہوتی ہیں لیکن جب ایک نیا فرد گھر میں آتا ہے اور اس کی ذمہ داریاں بانٹنے کے ساتھ ساتھ گھر میں اپنی اہمیت او ساکھ بھی بنانے لگتا ہے ایسے میں ساس یہ محسوس کرنے لگتی ہے کہ اس کی اہمیت گھر میں کم ہونے لگی ہے۔
بہو اپنے شوہر پر ماں سے زیادہ حق جتاتی ہے، ایسی صورت میں بہو کو چاہیئے کہ وہ ساس کا نقطہ نظر سمجھنے کی کوشش کرے۔ ماہرِ سماجیت شمیم آصف کہتی ہیں کہ ”پہلے مائیں اپنے بچوں کے لیے بہو کے دکھ درد سہہ لیتی تھیں مگر اب رویوں میں تبدیلی ہونے کی وجہ سے ساس بھی برداشت نہیں کرتی کہ بیٹا جب کمانے کے قابل ہو جائے تو اسے ممل طور پر بیوی کے حوالے کر دیا جائے۔ پہلے ساسیں کہتی تھیں کہ اس عمر میں اچھا نہیں لگتا کہ گہرے رنگ کے ملبوسات پہنے جائیں اور اپنگ پر پیسہ برباد کیا جائے مگر اب ماڈرن ساسیں اپنی زندگی بھر پور طریقے سے گزارنے کی قائل ہیں اور اپنی زندگی میں کسی کی مداخلت بھی برداشت نہیں کرتیں۔“

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Kya Aaj Ki Saas Kal Sy Behtar Hai" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.