Pasand Ki Shaadi Napasand Kiyon - Article No. 1156

Pasand Ki Shaadi Napasand Kiyon

پسند کی شادی نا پسند کیوں؟ - تحریر نمبر 1156

مشہور محاورہ ہے ”میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی“۔ لیکن پسند کی شادی کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ ہی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر گھر والے چار نا چار لڑکی یا لڑکے کو پسند کی شادی کی اجازت دے دیتے ہیں

بدھ 4 مارچ 2015

مونا نواب:
ذونیرا کو آج پھر اپنی ساس کی جانب سے بہت سی ناگوار باتین سننے کو ملیں اور ساتھ ہی اس کی ساس نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر طعنہ مار امیں تو اس شادی کے حق میں نہیں تھی نجانے تم نے اور تمہارے خاندان والوں نے میرے بیٹے پر ایسا کیا جادو کر دیا تھا کہ وہ تمہارے سوا کسی اور لڑکی کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ آخر کار مجبور ہو کر مجھے ہاں کرنا پڑی ورنہ میرے بس میں ہوتا تویہ شادی کبھی نہ ہوسکتی تھی۔

ذونیرا کی شادی کو اب پندرہ سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا تھا اور جب بھی اس کی ساس کو ذونیرا کے کسی کام میں تھوڑا سا بھی پھوہڑ پن یا جلد بازی نظر آتی تو وہ آوٴ تاوٴ دیکھے بغیر ہی بات اس کی شادی تک لے جاتیں۔ پہلے پہل تو ذونیرا اپنی ساس کی جانب سے طنزیہ باتوں کی برداشت کرتی رہی لیکن حد تو اس دن ہوئی جب اس کی ساس نے اپنے14پوتے کے سامنے بھی یہ بات دُہرا دی۔

(جاری ہے)

اس پر چودہ سالہ بیٹے کو بہت غصہ آیا۔ وہ اپنی دادی کو صرف یہ کہہ کر گھر سے باہر نکل گیا اگر آپ کو میری ماں پسند ہی نہیں تھی تو آپ نے یہ شادی کیوں ہونے دی۔ ساس نے جب پوتے کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو وہ اور بھڑک گئیں اور شامت پھر ذونیرا کی آگئی کہ بچوں کے ذہنوں میں ہمارے خلاف نجانے کیا زہر اُگلتی ہو کہ کل کے بچے بھی میرے خلاف ہو گئے ہیں اس بات سے بالکل انجان کہ ایک بچہ اگر چودہ سال سے ایک بات سن رہو ہے تو لامحالہ ایک دن وہ بھی اس پر کچھ نہ کچھ اظہار کرے گا۔

یہ مسئلہ کسی ایک گھر کا نہیں بلکہ اکثر گھروں میں یہ مسئلہ اسی طرح زیر بحث رہتا ہے۔ میاں بیوی دونوں کو ہی اپنے بروں کی باتیں سننا پڑتی ہیں کچھ نوجوان اس بات کو سننا گوارہ نہیں کرتے، اپنے بزرگوں او بہن بھائیوں سے علیٰحدگی اختیار کر لیتے ہیں جبکہ کچھ جوڑے ایسا نہیں کرتے۔ اسلام اگرچہ پسندکی شادی کی اجازت دیتا ہے لیکن نوجوان والدین کی رائے احترام بھی ضروری کریں۔

مشہور محاورہ ہے ”میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی“۔ لیکن پسند کی شادی کو ہمارے معاشرے میں ہمیشہ ہی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر گھر والے چار نا چار لڑکی یا لڑکے کو پسند کی شادی کی اجازت دے دیتے ہیں تو ان کے بچے ساری زندگی رشتہ داروں اور دوست و احباب کی جانب سے یہی طنزیہ جملہ سننے کو ملتے ہیں ۔ بعض اوقات دونوں گھرانوں کے ماحول میں مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے والدین اعتراض کرتے ہیں۔
اگر والدین آرام سے بچوں کو بٹھا کر یہ مسئلہ ان کے سامنے رکھیں اور اُنہیں مستقبل میں پیش آنے والے حالات سے بھی بخوبی آگاہ کریں پھر انہیں اس بات کی جلد سمجھ آجائے گئی کیونکہ لڑائی جھگڑا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔
”پسند کی شادی ناپسند کیوں؟ “ اس حوالے سے گزشتہ دنوں ہم نے ایک سروے میں شادی شدہ خواتین کے خیالات جاننے کی کوشش کی تو اس موضوع کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مسز حمنہ سرفراز نے کہا میری شادی اگرچہ لو میرج ہے لیکن مجھے خوش قسمتی سے ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
میں اپنے تجربے کی روشنی میں یہی کہوں گی کہ آج بدلتے دور کے بدلتے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے والدین کو بیٹے کی پسند کی پسند کرلینا چاہیے اور کھلے دل سے اس کا استقبال کرتے ہوئے نئی بہو کو گھر میں جگہ دینی چاہیے کیونکہ شادی کے بعد نیا سسرال اور گھر کا ماحول دونوں ہی نئی بہو کیلئے اجنبی ہوتے ہیں۔ نئی بہو کو اس نئے نظام کا حصہ بننے کیلئے تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے۔
لیکن ہم نئی بہو کو غلطیوں سے پاک خدا کی کوئی ماورا مخلوق سمجھتے ہیں اور اسے وقت نہیں دیتے۔
بعض اوقات نئی بہو آتے ہی گھر کے ماحول کو سمجھنے بغیر اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق فیصلے کرتی ہیں تو سال جو پہلے ہی دن اس طاق میں ہوتی ہیں کہ نئی بہو کوئی غلط کام کرے اور اس کی توپوں کا رُخ بہو کی جانب کھلے۔ بعض اوقات ساس اور نندیں مل کر نئی بہو کے خلاف محاذ آرائی کا آغاز کرلیتی ہیں۔
جس کے ناخوشگوار نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ کوشش یہی کرنی چاہیے کہ ساس بہو اور نندیں مل کر ٹھنڈے دل و دماغ سے کسی بھی مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کریں نہ کہ جگ ہنسائی کا موقع دیں۔ میں سے سسرال میں آکر ایک اور بات نوٹ کی ہے کہ نئی بہو صرف سسرالی گھر تک ہی نہیں بلکہ سسرالی رشتے داروں میں بھی اپنے رویے کی وجہ سے مقبولیت یا بدنامی حاصل کرتی ہے۔
اب یہ ساس اوربہو پرمنحصر ہے کہ وہ عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کس حد تک اس مسئلے پر قابو پاتی ہیں۔
64 سالہ مسز عظیم قریشی نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرے بیٹے نے جب اُن کے ساتھ اپنی کلاس فیلو سے شادی کرنے کی بات ک تو میں پہلے تو حیران ہوئی کیونکہ ہمارے خاندان میں آج تک کسی کی شادی بھی خاندان سے باہر نہیں ہوئی تھی، ہمارے ہاں غیروں میں شادی کرنے کا رواج ہی نہ تھا لیکن میں نے یہ بات اپنے شوہر کے گوش گزار کی تو انہوں نے فوراََ بیٹے کا ساتھ دینے کی بات کی ۔
انہوں نے کہا کہ اسلام جب پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے تو ہمیں بچوں کیساتھ ہرگز زبردستی نہیں کرنی چاہے۔ ایسی شادی کاکیا فائدہ جب میاں بیوی کے آپس میں تعلقات ہی خوشگوار نہ ہوں۔ میں سمجھتی ہوں والدین کو اس موقع پر بچوں کی نسبت بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور بچوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ والدین اس وقت زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اگر لڑکی یا لڑکے کی بیک گراونڈ میں کوئی مسئلہ دکھائی دے رہا ہو تو ان کی آنے والی زندگی میں رکاوٹ کا باعث بھی بن رہا ہو، ایسے موقع پر والدین اگر پیار سے بچوں کو حالات کی نزاکت کا احساس دلادیں تو بچوں کے ذہنوں میں ضرور یہ بات رہ جاتی ہے اور پھر خواہ وہ اپنی مرضی کر بھی لیں تو کچھ ہی عرصے میں انہیں اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ والدین کی رائے ٹھیک تھی ۔
والدین بعض اوقات اپنی مرضی سے بچوں کی زبردستی شادی کر دیتے ہیں لیکن لڑکا یا لڑکی ایک دوسرے کی معمولی بات برداشت ہی نہیں کرتے اور نوبت علیٰحدگی تک جا پہنچتی ہے۔
قارئین کرام ! پسند کی شادی کے اس موضوع پر آپ کو بھی اظہار خیال کا دعوت دے جا رہی ہے آپ بھی ہمیں اپنی آراء سے آگاہ کیجئے گا۔

Browse More Special Articles for Women

Special Special Articles for Women article for women, read "Pasand Ki Shaadi Napasand Kiyon" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.