Bachoon Ki Mobile Phone Main Gair Mamooli Dilchaspi - Article No. 1117

Bachoon Ki Mobile Phone Main Gair Mamooli Dilchaspi

بچوں کی موبائل فون میں غیر معمولی دلچسپی - تحریر نمبر 1117

تعلیمی اداروں میں بچوں کو موبائل فون لے جانا کی اجازت نہیں لیکن کچھ بچے بچ بچا کر والدین کو چکمہ دے کر کسی نہ کسی طرح اسے لے ہی جاتے ہیں اور آپس میں اپنے اپنے موبائلز کی خوبیاں بیان کرتے نظر آتے ہیں

جمعرات 20 نومبر 2014

مظہر حسین شیخ:
جوں جوں وقت گزررہا ہے نت نئی ایجادات جنم لے رہی ہیں اور یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا،ہر ایجاد کے منفی اور مثبت اثرات ہوتے ہیں یہ انسان کی اپنی سوچ ہے کہ اس کا استعمال کیسے کرتا ہے ،ظاہر ہے منفی استعمال سے منفی اور مثبت استعمال سے اچھے نتائج برامد ہوں گے۔ان ایجادات میں موبائل فون سر فہرست ہے، جس سے فاصلے سمٹ گئے اورپیغام رسانی کا کام چند سیکنڈوں میں ہونے لگا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے موبائل فون کی بھرمار ہے اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہر سال نہیں بلکہ ہر ماہ نیا ماڈل تیارہورہاہے،اس کے ساتھ ساتھ فون میں نئی سہولتیں میسر ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کم عمر بچے اس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں پاکستان میں موبائل فون کا رجحان جتنی تیزی سے بڑھ رہا ہے یہ بچوں کے لئے اچھا نہیں۔

(جاری ہے)


تعلیمی اداروں میں بچوں کو موبائل فون لے جانا کی اجازت نہیں لیکن کچھ بچے بچ بچا کر والدین کو چکمہ دے کر کسی نہ کسی طرح اسے لے ہی جاتے ہیں اور آپس میں اپنے اپنے موبائلز کی خوبیاں بیان کرتے نظر آتے ہیں،دیکھا دیکھی دوسرے بچے بھی اپنا رُعب جمانے کے لئے روزانہ نہیں تو جب کبھی بھی موقع ملتا ہے لے جاتے ہیں جوان کی پڑھائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہواہے۔

ہر عمل کا ردعمل ضرور ہوتا ہے۔ کسی بھی چیز کا غیر معمولی استعمال نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ آج کل کے بچے کھانے پینے یا جسمانی کھیل پر اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی توجہ موبائل فون کے ذریعے میسجز پرصرف کرتے ہیں اگر اتنی توجہ اور دلجمعی سے پڑھائی میں دلچسپی لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اعلیٰ پوزیشن حاصل نہ کرسکیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے جن کو ابھی کم عمری میں فون کی قطعاً ضرورت نہیں وہ والدین سے ضد کرکے اْنہیں مہنگے داموں موبائل فون خریدنے پر مجبورکرتے ہیں ،بیشک صاحب حیثیت کے لئے مہنگے سے مہنگا موبائل فون خریدنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن ان میں سے ایسے والدین بھی ہیں جو عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کہاں تک ؟ دوسروں کی دیکھا دیکھی یہ بچے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ والدین سے اس شرط پر موبائل فون حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ اسے سکول لے کر جائیں گے اور نہ ہی اس کا غیر ضروری اور بے جا استعمال کریں گے،غیر ضروری استعمال بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

موبائل فون بھی اب ہر گھر کی ضرورت ہے لیکن گھر کے ایسے افرادجو ملازم پیشہ یاکاروباری ہوں ان کا فون کے بغیر گزارہ نہیں۔ بچے اپنا وقت گھر،سکول یا پھر اکیڈیمی میں گزارتے ہیں کیونکہ ابھی وہ زیر تعلیم ہیں ان کا موبائل فون سے کیا کام؟ بعض اوقات والدین کا بے جا لاڈ پیاران میں بگاڑ پیدا کرتا ہے،والدین اور اساتذہ کو جو امید یں ان سے ہیں ہوتی ہیں بچے ان پر پورا نہیں اترسکتے، بچوں کی بھلائی اور بہتری اسی میں ہے کہ ان کو اس سے دورہی رکھا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو راستے دیکھائے ہیں۔ ایک وہ راستہ جو نیکی کی طرف جاتاہے جس پر چل کر دنیا اورآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ راستہ جس پر چلنے والے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے دونوں راستے بتا کر انسان کو بآور کرایا ہے کہ اب آپ کی مرضی ہے کہ جو راستہ چاہیں راستہ اختیار کریں یقیناً اچھے بچے وہی ہیں جو نیکی کا راستہ اپناتے ہیں، اسی میں دُنیا وآخرت میں کامیابی کا راز پنہاں ہے۔

بد بخت ہیں وہ انسان جو نیکی کے راستے پر چلنے سے کتراتے ہیں اور بُرائی کی طرف جاتے ہیں اس کو اختیار کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ بچوں کی فطرت ہے جس کام سے انہیں منع کیا جائے وہی کرتے ہیں ایسے بچوں کو پیار سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔لمحہ بھر کی تسکین ساری عمر کے لئے پچھتاوہ بن سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ موبائل فون نے فاصلے کم کردیئے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ میلوں مسافت کرکے اپنے پیاروں کو اطلاع دیتے تھے مگر اب صرف اور صرف بٹن ٹچ کرنے سے طویل تر فاصلے بھی طے ہوجاتے ہیں۔
ادھر بٹن دبایا اْدھرجو بھی اطلاع دینا چاہتے ہیں مل گئی۔ پیغام رسانی کو آسان تر بنادیا۔ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ موبائل نے پوری دنیا کو مٹھی میں سمادیا ہے اس کے مثبت استعمال سے انسان استفادہ کر سکتا ہے۔
موبائل نے جہاں ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہاں معاشرے میں برائی کو بھی فروغ دیاہے۔ برائی کو پھیلانے میں موبائل کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
نسل نو ہاتھوں موبائل تھامے نظر آتی ہے۔ کوئی تصویریں بنارہا ہے۔ کوئی ویڈیوبنارہا ہے۔ پڑھائی کم اور غیر ضروری کام زیادہ۔آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں جب سے پاکستان میں موبائل نے جنم لیا سرکاری سکولوں کا رزلٹ زیرو کے برابر ہے۔ یوں ناخواندگی کی شرح بڑھنے لگی ہے اور دشمن کامیاب ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اور مذہبی تہواروں پر موبائل فون کی سروس بند کردی جاتی ہے۔

سردیوں کا موسم تو نئی نسل کیلئے عید سے بڑھ کرہوتا ہے۔ ادھرشام ڈھلی تو اُدھر رضائی میں گھس کر گھنٹوں باتیں کی جاتی ہیں بعض والدین تو اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہیں لیکن زیادہ تر اس سے بے خبر رہتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ بچے والدین کی آ نکھوں میں دھول جونکنے سے گریز نہیں کرتے۔ میسج ہوں یا کال ساری رات سلسلہ جاری رہتا ہے اور صبح کو سردرد کا بہانہ لگا کر کالج، یونیورسٹی سے چھٹی کرلی جاتی ہے۔
موبائل کمپنیوں نے بھی فری کالز پیکج اور ایس ایم ایس کی بھرماری کررکھی ہے۔ نسل نو ترقی کرنے کی بجائے اپنے آپ کو تباہ وبرباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔موبائل کو ترقی کی ایجاد سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا منفی استعمال مسلمانوں کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔موبائل فون میں مکمل سہولیات فراہم کردی گئی ہیں جیسا کہ کمپیوٹرمیں ہیں۔ ریڈیو تک بات ٹھیک تھی مگر جو ویڈیو کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
نئی نسل کو تباہی کی طرف لایا جارہا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گدا گر وں نے بھی موبائل فونز رکھے ہوئے ہیں، جبکہ نوجوان نسل ہینڈ فری (ٹوٹیاں) کانوں میں لگائے بائیسکل،موٹر بائیک اورگاڑی چلاتے دیکھے گئے ہیں جو حادثے کا سبب بھی بنتے ہیں،صرف ایک غلطی کی وجہ سے خود تواپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن اس سے پورا خاندان تباہ ہو جاتا ہے۔
یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کواس کا سختی سے نوٹس لیناچاہیے۔
جہاں حکومت کافرض بنتا ہے کہ ڈرائیونگ کے دوران فون سننے اور کرنے کا سختی سے نوٹس لے وہاں والدین کو بھی چاہیے کہ اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھیں اور اس موذی مرض سے محفوظ رکھیں۔ والدین کی عدم توجہ بھی بچوں کو برائی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ کیوں نہ بچوں پر کڑی نظر رکھ کر پھیلتی ہوئی اس برائی کا سدباب کیاجائے۔

کالے کالے بادل آئے
کالے کالے بادل آئے
جھوم جھوم کر سر پہ چھائے
مینہ برسے گا ٹپ ٹپ ٹپ
ڈھول بجے گا ڈھب ڈھب ڈھب
راجہ ڈھول بجاتا جائے
رانی گانا گاتی جائے
مینڈک بھی ٹراتا جائے
کوئلیا کوکو کرتی جائے
گویا راگ ملہار گائے
ملکہ بیٹھی بین بجائے
ہوا کی سنن سنن لہرائے
چڑیا اپنے پر پھیلائے
میٹھا پکوان تلا بھی جائے
ساتھ میں مزا لیا بھی جائے
حلوائی کھیر بناتا جائے
ساتھ میں گانا گاتا جائے
بادل گرجے گا ڈھب ڈھب ڈھب
مینہ برسے گا ٹپ ٹپ ٹپ

Browse More Child Care & Baby Care Articles

Special Child Care & Baby Care Articles article for women, read "Bachoon Ki Mobile Phone Main Gair Mamooli Dilchaspi" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.